اتوار کی شام دہشت گردوں نے عروس البلاد لاہور کو ایک بار پھر خون میں نہلا دیا۔ پچھلے بارہ سال میں لاہور تین درجن سے زیادہ بم دھماکوں کا نشانہ بن چکا ہے مگر تازہ ترین حملہ جس میں آٹھ سے دس کلو وزنی بارودی مواد استعمال ہوا ان میں سب سے زیادہ لرزہ خیز تھا کیونکہ اس کا نشانہ زیادہ تر عورتیں اور معصوم بچے تھے جو اقبال ٹائون کے گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے تہوار ا ور اتوار کی چھٹی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ پچیس تیس سال عمر کے خود کش حملہ آور نے پارک کے مرکزی دروزاے پر جس کے قریب بچوں کے جھولے تھے اور لوگ بڑی تعداد میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ اندر باہر ا ٓجا رہے تھے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ کہا جاتا ہے کہ دھماکے کے وقت پارک میں تین ہزار سے زیادہ لوگ موجود تھے، اس اندوہناک سانحے میں 70سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ان میں مسیحی برادری کے لوگ بھی شامل ہیں۔ دھماکے بعد افراتفری پھیلنے سے اکثر بچے ماں باپ سے بچھڑ گئے اور ان میں سے کئی لوگوں کے پائوں تلے روندے جانے سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں پنجاب میں تین جبکہ سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ایک ایک روز کے سوک کا اعلان کیا گیا اور قومی پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس سانحے کے بعد اپنا لندن کا دورہ منسوخ کردیا اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلا لیا جس میں سیکورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ایسا ہی ایک اجلاس آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی بلایا اور سانحہ لاہور میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی فوری گرفتاری کی ہدایت کی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی تنظیم جماعت الا حرار نے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جو حالیہ مہینوں میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ایسے ہی واقعات کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔ پولیس نے پارک اور اس کے آس پاس سے درجنوں مشکوک افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ فوج اور سیکورٹی اداروں کے جوان دھماکے کے فوری بعد جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا ، اقبال ٹائون میں اپنی نوعیت کا یہ چوتھا حملہ تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہےکہ یہاں سیکورٹی کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔ دھماکے کے وقت بھی گلشن اقبال پارک میں سیکورٹی گارڈ موجود تھا نہ کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہوا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اتوار کو ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی سیکورٹی ایجنسیوں نے پیشگی اطلاع دے دی تھی مگر ضلعی حکومت نے اسے روکنے کیلئے کچھ نہیں کیا جس سے خود کش حملہ آورکو جو مبینہ طور پر بارودی مواد ایک تھیلے میں اٹھائے ہوئے تھا انسانی جانوں سے کھیلنے کا موقع مل گیا۔ ملک میں دہشت گردی کی خاتمے کیلئے ایک محاذ ضرب عضب کے نام سے پاک فوج نے سنبھال رکھا ہے اور اس کا مشن تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ دوسرا محاذ قومی ایکشن پلان کے نام سے قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کےذمےہے جسے فوج کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ اس پلان کا ایک مقصد فاٹا اور ملحقہ، علاقوں سے بھاگ کر ملک کے اندرونی علاقوں کا رخ کرنے والے دہشت گردوں کا پیچھا کرنا تھا جو مایوسی کے عالم میں تعلیمی اداروں اور عام پبلک مقامات پر معصوم طلبا اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانے کے درپے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ قومی ایکشن پلان میں کوئی خامی ہے یا اس پر عملدرآمد میں سست روی اور غیر سنجیدگی کا عمل دخل ہے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو مختلف شہروں میں کارروائیاں کرنے کا موقع مل جاتا ہے، حکومت کو چاہیئے کہ وہ سیکورٹی کے نظام میں کمزوریوں کا جائزہ لے اور ایسے اقدامات کرے جن سے شہری علاقوں میں دہشت گردی موثر طورپر روکی جا سکے اس سلسلے میں سیکورٹی اداروں ا ور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے باہمی رابطوں اور معلومات کے تبادلے کا نظام موثربنایا جائے اورضلعی اداروں کو بھی متحرک اور جواب دہ بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی عام شہریوں کوبھی ترغیب دی جائے کہ وہ ہر قسم کی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور متعلقہ اداروں کو اس کی بروقت اطلاع دیں۔