• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں گزشتہ روز جس بدانتظامی اور بدنظمی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے وہ امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے والے تمام ادارےاور اس کی بظاہر ناکامی کی گواہی دے رہا ہےاور ایسے لگتا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے ذمہ دار اداروں کو جس بہتر حکمت عملی کا مظاہر کرنا چاہئے تھا اس میں وہ اس حد تک ناکام ہوگئے کہ مشتعل مظاہرین نے نہ صرف ریڈ زون کی سیکورٹی کو عبور کرلیا بلکہ پارلیمنٹ کی حساس عمارت تک پہنچ کر وہاں دھرنا بھی دے دیا جس پر حکومت کی درخواست پر فوج کے دستوں نے حساس عمارتوں کی سیکورٹی سنبھال لی۔ ایسے لگتا تھا مشتعل ہجوم کو روکنے اور ٹوکنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ وہاں موجود پولیس اور رینجرز نے ریڈ زون کی حفاظت کیلئے جو کنٹینرز لگائے تھے مشتعل ہجوم نے نہ صرف انہیں بھی عبور کرلیا بلکہ انہیں نذر آتش کردیا جس سے اسلام آباد میں چاروں طرف آگ پھیل گئی۔ ہجوم کے بہت سے مشتعل مظاہرین پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت تک جا پہنچے ، اگرچہ پولیس اور رینجرز نے انہیں روکنے کیلئے لاٹھی چارج بھی کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس میں رینجرز کا ایک کرنل، سٹی پولیس افسر ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور درجنوں پولیس اہلکار سمیت مظاہرین بھی زخمی ہوئے جبکہ ہنگامہ آرائی کرنے والے دو سو سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا لیکن یہ کارروائی موثر ثابت نہ ہوئی ۔ راولپنڈی ا ور مری روڈ پر بھی کئی مقامات میدان جنگ بنے رہے۔ مظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے۔ بلیو ایریا میں میٹرو سٹیشن کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ فیض آباد اور اسلام آباد آنے والے راستوں کی پولیس نے صبح سے ہی سخت ناکہ بندی کر رکھی تھی لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب جلوس وہاں پہنچا تو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے موثر طور پر انہیں روکنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا اور مظاہرین آزادانہ طور پر اسلام آباد میں داخل ہوگئے۔ رات جب حالات سول انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوگئے تو فوج کو طلب کیا گیا جس نے حساس عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا اور صورتحال پر بڑی حد تک قابو پالیا۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں سمیت ماضی میں تین چار بار اس طرح کے ناخوشگوار واقعات پیش آچکے ہیں جس میں سیکورٹی کا انتظام موثر نہ ہونے کی وجہ سے مشتعل مظاہرین نے ریڈ زون کو نہ صرف عبور کیا بلکہ حساس عمارتوں تک مارچ بھی کیا۔ ایک بار تو ایسا ہوا کہ ایک شخص کلاشنکوف لے کر اسلام آباد میں داخل ہوگیا اور کئی گھنٹے تک شہر کو یرغمال بنائے رکھا۔ اس وقت بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں جو ملک کا دارالحکومت ہے اور جہاں ریڈ زون میں قومی اسمبلی اور غیر ملکی سفارت خانوں سمیت متعدد حساس تنصیبات موجود ہیں اس میں سیکورٹی کا انتظام موثر اور ایسا فل پروف نہیں ہے کہ کسی کو داخل ہونےسے روکا جاسکے اور ملک کے اس اہم ترین شہر میں امن و امان کی صورتحال کو موثر بنانے کیلئے ایسے انتظام نہیں ہیں جیسے ہونے چاہئیں۔ چاہئے تو یہ کہ حساس علاقوں میں سیکورٹی اور امن و امان ایسے مکمل انتظام ہوں کہ کوئی پرندہ بھی پر نہ مار سکے لیکن ماضی قریب اور گزشتہ روز کے حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ڈنڈا بردار مشتعل لوگ جب چاہیں اپنی مرضی سے سیکورٹی کی تمام رکاوٹوں کو توڑ کر ’’ ریڈ زون‘‘ میں داخل ہوجائیں ،وہاں توڑ پھوڑ کریں اور دھرنا دے کر بیٹھ جائیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ مظاہرین راولپنڈی سے مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد ہی نہیں حساس علاقوں میں بھی داخل ہوگئے، ان کو روکنے ٹوکنے والا کوئی بھی نہیں تھا اور نہ ہی حکومتی سطح پر کسی نے ان سے مذاکرات کئے۔ وزرات داخلہ کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی۔ ضرورت یہ ہے کہ اسلام آباد کے اس واقعہ پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جا ئے کہ ایسا کیوں ہوتا رہا ہے اور اس تاثر کو بھی زائل کیا جائے کہ اسلام آباد میں موثر اور بہتر سیکورٹی کا انتظام موجود نہیں ہے یہ حکمرانوں ہی نہیں سب کیلئے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔
تازہ ترین