• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان نے 13 جون 2010ء کو ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے 7.5 بلین ڈالر کے گیس کے منصوبے جس کو ”امن کی پائپ لائن“ کا نام دیا گیا ہے پر ایران کے نائب وزیر پیٹرولیم جاوید اوجی نے پاکستان کے وفد کے ساتھ تہران میں دستخط کئے جس کے تحت دسمبر 2014ء سے ایران پاکستان کو یومیہ 750MMCFD قدرتی گیس 25 سال تک سپلائی کرے گا جو ہماری اس وقت استعمال ہونے والی گیس کے حجم کا تقریباً 15% ہے۔اس منصوبے سے پاکستان اپنی بجلی کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے اضافی 4000 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکے گا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مدت کو مزید 5 سال تک بڑھاکر 30 سال تک کیا جاسکتا ہے اور گیس کی مقدار کو بھی 750 سے بڑھاکر 1000MMCFD یومیہ کیا جاسکتا ہے جس کیلئے پاکستان کو 700 کلومیٹر 42 انچ پائپ لائن مکران کوسٹل ہائی وے پاک ایران بارڈرز پر ڈالنا پڑے گی تاکہ یہ پائپ لائن نوابشاہ گیس منتقلی کے تجویز کردہ گیس نیٹ ورک تک لائی جاسکے جس کی لاگت کا تخمینہ مزید 1.65 ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور اس کی تنصیب میں تقریباً 3 سال کا عرصے لگے گا اور اس سے مجموعی 500 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔
ایران نے اپنی جنوبی گیس فیلڈ سے گیس سپلائی کرنے کیلئے پہلے ہی 907 کلومیٹر گیس پائپ لائن اصلیہ اور ایرانشہر کے مابین ڈال دی ہے اور صرف 300 کلومیٹر پائپ لائن جنوب مشرقی شہر ایرانشہر سے پاکستانی بارڈر تک ڈالنی ہے جبکہ پاکستان کے حصے کی 781 کلومیٹر گیس پائپ لائن ایرانی سرحدی گاؤں تدبیر سے نوابشاہ تک ڈالنے کی لاگت 1.5 بلین ڈالر ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے امریکہ کی ایران پر پابندیوں کی وجہ سے اس پروجیکٹ کی فنانسنگ میں دلچسپی نہیں لے رہے لہٰذا پاکستان کے حصے میں ایرانی کمپنی تدبیر انرجی کے ذریعے گیس پائپ لائن بچھانے کیلئے ایران 500 ملین ڈالر کا قرضہ 20 سال کیلئے دے گا، 500 ملین ڈالر چائنا سے قرضے کی صورت میں لئے جائیں گے اور بقایا 500 ملین ڈالر پاکستان گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج (GIDC) کی شکل میں اپنے صارفین سے ماہانہ بلوں کے ذریعے وصول کرے گا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے صنعتی صارفین کی درخواست پر GIDC کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا ہے۔ پاکستان اور ایران نے 11 فروری 2013ء کو اسلام آباد میں منصوبے کی تعمیر (EPC) کیلئے اہم مذاکرات کئے جس کی رو سے ایران پاکستان کے حصے میں ہر روز 2 کلومیٹر گیس پائپ لائن بچھاکر مجموعی 781 کلومیٹر پائپ لائن کو 15 سے 16 ماہ میں 31 دسمبر 2014ء تک مکمل کرے گا۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد 750MMCFDگیس سے پاکستان یومیہ 4000 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکے گا۔ یاد رہے کہ ہماری جی ڈی پی گروتھ میں کمی کی اہم وجہ ملک میں انرجی کا بحران ہے جس کے مدنظر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے مفاد میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ گیس کے حصول کے دوسرے منصوبے ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن (TAPI) پر عملدرآمد پر خدشات ہیں اس کے علاوہ TAPI منصوبے کی مجموعی لاگت اور مدت نہایت زیادہ ہے جبکہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ 31 دسمبر 2014ء تک مکمل ہوسکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے قومی مفاد کے تحت امریکہ کی مخالفت کے باوجود اس پروجیکٹ کو تکمیل کرنے کا عزم کیا ہے۔ میں قومی اور بین الاقوامی معاشی امور پر تحقیق کرتا رہتا ہوں اور میرا یہ یقین ہے کہ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے مکمل ہونے سے پاکستان میں صنعتی ترقی اور معاشی خوشحالی آئے گی نہیں تو ہماری صنعتوں کا پہیہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اسی طرح بند ہوتا رہے گا۔
میرے حالیہ دورہ ہیوسٹن میں جو دنیا کا تیل اور انرجی کا حب ہے میں بھی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بے شمار سوالات کئے گئے کہ صدر زرداری نے ایران کا دورہ آخری لمحات میں کیوں منسوخ کیا؟ 15 فروری کو اسلام آباد میں پاک ایران گیس لائن معاہدے پر 5 روز تک تیکنیکی سطح پر مذاکرات کے بعد معاہدے کے مسودے پر اتفاق کرلیا ہے اور کابینہ کمیٹی نے بھی اس مسودے کی منظوری دے دی ہے۔اس میٹنگ میں وزارت پیٹرولیم نے ایران سے گیس کی قیمت میں بھی کمی کی درخواست کی کیونکہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت ملنے والی گیس کی قیمت پاک ایران منصوبے سے کچھ کم ہے۔ ایران پاکستان کو قدرتی گیس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات اور LPG گیس بھی سپلائی کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس سلسلے میں حال ہی میں ایران کے وزیر پیٹرولیم نے اسلام آباد میں پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی ہے۔ میری خواہش ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت میں اس اہم منصوبے کا سنگ بنیاد رکھے۔
اس منصوبے کے علاوہ پاکستان میں مختصر مدت میں انرجی بحران سے نمٹنے کیلئے ایل این جی گیس کی امپورٹ ضروری ہے جس کیلئے پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمینل تعمیر کرنا ہوگا تاکہ امپورٹ کی جانے والی گیس SSGC کے پائپ لائن میں داخل کی جاسکے۔ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کیلئے ٹینڈرز جاری ہونے والے ہیں لیکن اس کی تکمیل میں بھی ڈیڑھ سے دو سال کا وقت لگے گا۔ اس کے علاوہ سولر اور ونڈمل سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی جلد بجلی کے حصول میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں لیکن ان سے بڑی مقدار میں بجلی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ توانائی میں خود کفالت کیلئے ہمارے طویل المدت منصوبوں میں تھرکول، ہائیڈرو اور شیل گیس کے پروجیکٹس شامل ہیں ۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس وقت ہماری سب سے زیادہ بجلی 35.3% فرنس آئل سے، 32.3% قدرتی گیس سے، 30.30% ہائیڈرو اور صرف 2% نیوکلیئر ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہماری بجلی کی اوسط پیداوار مہنگی ہوتی جارہی ہے جبکہ دنیا کے انرجی مکس میں 40%بجلی کوئلے سے ، 20% گیس، 16% ہائیڈرو، 15% نیوکلیئر، صرف 7% فرنس آئل اور 2% متبادل ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے لہٰذاہمیں بھی سستی بجلی کے حصول کیلئے اپنے انرجی مکس کو بہتر بنانا ہوگا جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمام معدنی و قدرتی وسائل عطا کئے ہوئے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے 1993ء سے تھرکول کی دریافت کے بعد اب تک کوئلے سے انرجی پیدا کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ 2002ء میں چین کا شین وان گروپ اپنے 132 انجینئرز اور ماہرین کے ساتھ پاکستان آیا تھا جس نے 2 سال تک تھرکول کے ایک بلاک سے 3000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر رات دن کام کیا اور 2004ء میں پاکستان کو 5.6 سینٹ پر بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن ہماری اس وقت کی حکومت نے اصرار کیا کہ وہ 5.3 سینٹ پر بجلی خریدے گی اور اس طرح چینی گروپ منصوبہ ادھورا چھوڑ کر وطن واپس چلا گیا بعد میں پاکستان نے اس گروپ سے 6.5 سینٹ پر بجلی لینے کی آمادگی ظاہر کی لیکن چینی گروپ نے تھرکول منصوبے پر کام کرنے سے معذرت کرلی۔ بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے ہمیں ہر سال 2% جی ڈی پی گروتھ کا نقصان ہورہا ہے۔اگر ہم 2004ء میں 5.6 سینٹ پر بجلی فراہم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کرلیتے تو نہ صرف ہماری جی ڈی پی گروتھ متاثر کن ہوتی بلکہ پاکستان معاشی اور صنعتی ترقی کی راہ پر خطے میں آگے نکل چکا ہوتا۔ میں پھر بڑے دکھ کے ساتھ وہی جملہ لکھ کر اپنے کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ ”فردواحد غلطیاں کرسکتا ہے لیکن ملک اس طرح کی غلطیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا خمیازہ آنے والی نسلیں ایک طویل مدت تک بھگتی ہیں۔“
(نوٹ: گزشتہ کالم میں ٹائپنگ کی غلطی سے پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی غلط شائع ہوگئی۔ درست جی ڈی پی 240 بلین ڈالر سالانہ ہے۔)
تازہ ترین