• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دن دیہاڑے اقتدار پر قبضہ کرنے ،سب سے پہلے پاکستان کانعرہ لگانے اور پھر بیماری کے بہانے رات کی تاریکی میں بیرون ملک پہنچنے والے کمانڈوکی دبئی کے پرآسائش اپارٹمنٹ میں سگار سلگواتے اور اپنی درجن بھرپارٹی رہنماؤں کے ساتھ رنگین تصاویر سوشل میڈیا پردیکھنے اور ان پربعض منچلوں کے غیرروایتی اورطنزیہ کیپشنز پڑھ کراقتدار کا مزہ لینے والے بے بس حکمرانوں پر بے اختیار ہنسی آگئی،رہی سہی کسرآئین شکن کے ،وزیراعظم اوروزیرداخلہ کا شکریہ ادا کرنےکے الفاظ نے نکال دی ،دماغ میں ماضی کے دریچے وا ہوئے ،تقریبا ستر سال کی عمر کو پہنچنے والے اس ملک میں کہاجاتارہاہے کہ ایوب(اے)،یحییٰ (وائی) اور ضیاء(زیڈ) کےبعد مارشل لاء کی اے بی سی ختم ہوگئی ہے لیکن 18کتوبر1999 میں منتخب وزیراعظم کوہٹاکرکمانڈو نےاقتدار سنبھالا تودنیا میں جمہوریت کا شورمچانے والے دنیاکےتھانیدار مفادات کے سوداگر انکل سام نےاسے مشی انکل کے نام سے مشہور کردیا، دور بش میں قومی مفاد کو پس پشت ڈال کرذاتی مفادات کی اندھی تقلید میں بشرف کہلائے،عوام کی تقدیربدلنے کی خاطرسات نکاتی ایجنڈے کااعلان کیا، کڑااحتساب،معیشت وسرمایہ کاری کی بحالی،قومی عزم کی بلندی،فیڈریشن کی مضبوطی،اقتدارکی نچلی سطح پرمنتقلی،مستقل امن وامان کاقیام اوراداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا شامل تھا،لیکن مجھ سمیت پوری قوم نے دیکھاکہ 9سال کےبلاشرکت غیرے اقتدارپرقابض شخص نےاس ملک و قوم کے ساتھ کیاکچھ نہ کیا، امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے نہ ختم ہونے والےجنگ وجدل کے سلسلے کا آغازفرنٹ لائن اتحادی بن کرکیا، ہزاروں ہم وطنوں کوکروڑوں ڈالرز کے عوض بیچا جس کا اپنی کتاب ان دی لائن آف فائر میں فخریہ انداز میں ذکر بھی کیا، ،بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے ناموں کی وفاداریاں خریدیں،تانگہ پارٹیاں بنائیں جن کو آجکل کی زبان میں چنگ چی رکشا پارٹیاں بھی کہاجاتاہے اورحکمرانی کےعرصے کو دراز کرنے کےسوجتن جاری رکھے،لیکن عوام کوپہلے کیاملاتھاجواب کچھ ملتا،قوم کی قسمت ملاحظہ کیجئے کہ مارشل لاء لگانے والے ہمیشہ منگل کوقابض اقتدارہوئے اور منگل کو گوشت کاتوناغہ ہوتاہےلہذا قربانی آئین اور معصوم عوام کو دینا پڑی ہے، کہتے ہیں کہ کسی کی ایک غلطی دوسرے کی دو بلکہ میں کہتاہوں دس غلطیاں مل کر بھی درست قرار دینے کا جواز نہیں بن سکتیں توپھرصرف طیارہ موڑنے کےالزام کی غلطی کسی منتخب شخص کو اقتدار سے ہی نہیں بلکہ وطن بدری جیسی کہیں بڑی غلطی کا جواز کیسے بن سکتی ہے،پھر نو سال تک سیاہ وسفید اور تنہا تمام فیصلوں کاقاضی بن کرعوام کودیا کیایہ اپنی جگہ ایک بڑاسوال ہے،اب مضبوط و آہنی کھال کے بغیرملک پر دوبارہ حکومت کرنے والے مہان ، سات نکات تو کجا اگر صرف کوئی ایک نکتہ قومی ترقی ومقام کا محوربنالیتےتوشاید آج حالات کچھ اور ہوتے،ایک نکتہ کسی دور رس بڑے معاشی منصوبے کی صورت میں ہوسکتاتھاجیسا کہ بجلی کےبحران کے خاتمے کے لئے بڑے ڈیموں کی تعمیر ،اسی طرح ایک نکتہ دس سال کے لئے تعلیمی ایمرجنسی کا بھی ہوسکتاتھاجو قوم کو سو فی صد خواندہ کرسکتاتھا اورملک وقوم کی قسمت بدل سکتاتھا،،لیکن اقتدار کے حصول کا یہ مقصد تھا نہ ایسا ہوا اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ مذاق ہی بنارہا، وطن عزیز جیسے ناتواں اور کم عمر ملک میں ہرمرتبہ جب ڈکٹیٹر اقتدارچھینتاہے تو عالمی طاقتیں اپنے مفادات کےتحفظ کے لئے ڈالروںکی برسات کرتی ہیں مصنوعی ترقی اور خوشحالی کی نوید سنائی جاتی ہےلیکن یہ بے موسم برسات عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے نہیں بلکہ اقتدار میں آنے والوں کے مقدرسنوارنے کے لئے ہوتی ہیں،غریب کا کچامکان توزمین بوس ہوکرقبربن جاتاہے،لیکن اس کڑوے جمہوری سچ سے بھی کوئی اپنے منہ کا ذائقہ خراب ہونے سے نہیں بچا سکتاکہ عوام کے ووٹ سے سالہا سال حکومتیں کرنے والےبھی ہمیشہ پہلے خزانہ خالی ہونے کا رونا اور پھراپنے دور میں معاشی خوشحالی اور توانائی سمیت دیگر ضروریات کے عوام کومیسر آنے کی نوید سناتے نہیں تھکتے،حقیقتاً وہ اپنے بزنس کو بڑھانے کے عزائم کی تکمیل اورخالی تجوریاں بھرنے کے سوااور کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے۔قارئین کو معلوم ہوگاکہ ڈکٹیٹر احکامات جاری کرنے والے کو کہتے ہیں کہ ان پر چار وناچارعمل کرنے والے بے چارے عوام ہوتے ہیں،معروف رائٹر چارلس بکووسکی کہتے ہیںکہ جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ میں فرق یہ ہےکہ جمہوریت میں پہلے عوام ووٹ دیتے ہیں اور بعد میں خود پر حکمرانی مسلط کرتے ہیں جبکہ ڈکٹیٹرشپ میں عوام کو ووٹ ڈالنے کے لئے وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا ،دنیا میں ڈکٹیٹرشپ کی صدیوں پرانی تاریخ سن بارہ سو چھ کے بدترین منگول ڈکٹیٹرچنگیز خان سے لے کر مشرق وسطیٰ ،افریقہ،ایشیا اور بعض مغربی ملکوں کے ڈکٹیٹروں کے ناموں سے بھری پڑی ہےلیکن عوام کا غیض وغضب ان کا انجام بنا،پاکستان میں بھی ابتداء سے ہی فردواحد نےڈکٹیٹرشپ کے ذریعےنہ صرف ترقی کا دھارا روکا،دہائی تک جعلی اعشاریوں سےسادہ لوح عوام کوزیرتسلط رکھااورہرضرورت سے محروم ومحکوم رکھا، پھرملک ٹوٹا اورمذہب کےنام پرسروں کی فصل کاٹنےکابیج بویاگیا،مسٹرمشرف کے اقتدارمیں حصہ دار اور قبضےمیں بازو بننے والوں نےعوام سےووٹ کے نام پرجمہوریت کو بلیک میل کیایہی نہیں انہیں وردی میں بار بارمنتخب کرانےکا سرعام اعلان بھی کیا ، نتیجتاً ملک جمہوری ڈگر پرچلنے کی بجائے سویلین ڈکٹیٹرزشپ کے شکنجے کا شکار ہوا،اس امر کی نشاندہی پلڈاٹ نے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے بارے میں اپنی حالیہ رپورٹ میں بھی کی ہے کہ خود جمہوری جماعتوں میں جمہوریت نہیں،،تو کیا جمہور کا یہی مقدر رہے گا؟وہ ووٹ ڈالیں بھی تو بیلٹ پیپران کی ترقی کے خلاف فیصلہ دےگا؟نسل در نسل ترقی کرنے والے ہی مقدر کے سکندر بنیں گے؟عوام صحت، تعلیم اورمعیشت کے سنورنےسمیت روزگارکی فراہمی کےمحض سپنے ہی دیکھتے رہیں گے؟حکومت کے پاس اپنی ریاستی خودمختاری ،آئین کے تحفظ اورآزادانہ حکومت چلانے کی طاقت نہ سہی، ٹیکس کو پوری ا یمانداری سے خرچ کرنے کی صلاحیت تو ہونی چاہئے،عوام میں جوابدہی اور خوداحتسابی کامادہ توہوناچاہئے،ڈاکٹرمنورصابر کاچند روز پہلےسنایاجانے والاواقعہ دل کی خلش کوبھڑکارہاہے کہ اقتدار کاکھیل ڈکٹیٹر کی سیاسی سوداگروں اور سرفروشوں کی مدد سے بچھائی بساط کا ہو یا کسی سیاسی لیڈر کا عوام کو دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے کرکے ووٹ لےکر حکمران بننےکا ،ہر دو صورت میں قربان گاہ عوام کے خون سے ہی رنگین ہونا مقدر ہے،تاش کے کھیل کا اصول ہےکہ تاش کے باون پتوںمیں سے اگر کوئی ایک پتہ گم ہوجائے تو جوکر اس گمشدہ کی کمی کو پورا کرتاہے،مگر حکمرانی کےکھیل کےاصول بھی نرالےہیں،کوئی پتہ غائب نہ بھی ہوجوکر ایسا فٹ ہوجاتاہےکہ تاش کے پتوں کے چار رنگوں کے مصداق ریاست کے چاروں ستونوں پر بلاشرکت غیرے مطلق العنان بن کر تاش کے پتوں کی تعداد کے برابر باون ہفتوں کے ایک سال جیسے کئی سالوں تک کروڑوں عوام کی آواز کودبا کر اقتدار کےکھیل کو اپنی مرضی تک جاری رکھتاہے۔ ذہن میں رہے،حکمراں اقتدار کے نشے اور اپوزیشن جماعتیں اقتدار کے حصول میں یونہی باہم دست وگریباں ہوتی رہیں توباریوں کے اس کھیل میں پھر کوئی جوکراپنا کام نہ دکھا جائے۔
تازہ ترین