• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی موجودہ حکومت امن وامان کی اپنی بنیادی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اس پر شاید ہی کوئی اپنی مفادات کی وجہ سے انکار کرے تو کرسکتا ہے مگر یہ بات اب پایہء تکمیل کو پہنچ گئی ہے کہ حکومت لوگوں کے جان و مال کے تحفظ میں یکسر ناکام ہوگئی ہے۔ کوئٹہ ہزارہ برادری جو تاجر اور پڑے لکھے لوگ ہیں وہ مسلسل نشانہ پر ہیں۔ شاید اس لئے کہ وہ خوشحال ہیں اور کوئٹہ پر اپنا اثرورسوخ بڑھا چکے ہیں، محب وطن پاکستانی ہیں اور بلوچستان کے دارالحکومت پر اُن کی بالادستی قائم ہے۔ کوئٹہ میں یہ مثبت تبدیلی آچکی ہے کہ پاکستان نواز ہزارہ برادری اکثریت حاصل کرچکی ہے۔ اِسی وجہ سے اُن پر اپنے غیرملکی آقاوٴں کو خوش کرنے کے لئے حملے ہورہے ہیں اور علیحدگی میں حائل بلوچستان کے نئے عنصر کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے 10 جنوری اور 16 فروری 2013ء کو تباہ کن حملے کئے گئے جن کے بعد ایک تنظیم کے خلاف ملک بھر میں ایک فضا پیدا ہوگئی کہ اب اس کا قلع قمع کردیا جائے۔ خود سپریم کورٹ نے ایسا کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ اگرچہ ہزارہ برادری اِس بات پر زور دے رہی ہے کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کردیا جائے، اس پر نہ تو فوج راضی ہے اور نہ سپریم کورٹ اور خود ہمارا مشورہ بھی یہ ہے کہ فوج چومکھی جنگ لڑ رہی ہے اور اپنے آپ کو کسی بڑے معرکہ کے لئے تیار کررہی ہے اس لئے اُس کو اِن معاملات میں نہ الجھایا جائے تاہم ہمت اور طاقت کے ساتھ دہشت گردی کرنے والوں کو ضرور سزا کے عمل سے گزارا جائے۔
دوسری طرف کراچی کا شہر ہے جہاں روزانہ تقریباً 10 سے 15 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اِن مرنے والوں میں شیعہ بھی ہیں، سنی بھی۔ بلوچ بھی ہیں، اُردو بولنے والے بھی، پشتون بھی ہیں، پنجابی بھی، ڈاکٹر بھی ہیں، انجینئر بھی، افسران بھی ہیں اور بینک کے عہدیداران بھی، تعلیم کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے، علمائے کرام اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی۔ تاجر تو سخت عذاب میں مبتلا ہیں۔ کراچی کی پوش آبادی ڈیفنس کلب کی رپورٹ کے مطابق ڈیفنس کلب کے 30 فیصد افراد کراچی کو چھوڑ چکے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ کراچی ”غریب کی ماں“ کا کردار ختم ہونے جارہا ہے، کیونکہ تاجروں کو پرچیاں ملتی ہیں کہ دہشت گردوں کو رقم ادا کی جائے، ادائیگی پر بھی وہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں اور عدم ادائیگی پر وہ جان سے جاتے ہیں۔ ایک منصوبہ کے تحت کراچی کی معیشت کو تباہ کیا جارہا ہے، یعنی ملک کی معیشت کو پچکایا جارہا ہے اور یہ کام ملک سے دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔ حیران کن طور پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ نائن ایم ایم کے 3 پستول سے 90 افراد مارے گئے۔ یعنی تین افراد نے 90 افراد کو نشانہ بنایا یا پھر کئی افراد نے ان پستولوں کا استعمال کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ڈائریکٹر یا سرغنہ ایک ہی ہے۔ اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ روشنیوں کے شہر کو تباہ کرنے کے لئے لسانی اور فرقہ وارانہ نفرت کو پروان چڑھا کر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ کوئٹہ کے واقعے نے 3 روز تک کراچی اور ملک کو منجمد کرکے اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ ایک تنظیم دیدہ دلیری سے حکومت کی طاقت کو چیلنج کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ وہ کوئٹہ جیل پر حملہ کرکے اپنے ساتھیوں کو جو کوئٹہ سانحہ میں ملوث ہیں رہا کرا لے گی۔ اس کے بعد آپریشن جائز ہوگیا ہے ۔ ٹی وی اینکرز برملا کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے خلاف کھلی جنگ ہورہی ہے، مقابلے کے لئے قوم متحد ہوجائے۔ جو لوگ حکومت کو چیلنج کرنے والوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے جن میں عمران خان بھی شامل تھے انہوں نے بھی لشکر جھنگوی کے سارے حملوں کو دہشت گردی قرار دیدیا ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ اس تنظیم کی طرف سے اُن کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور روس کے صدر ولادیمیرپیوٹن نے اِس حملے کی مذمت کی ہے۔ جس کے بعد اِن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ حکومت کی نااہلی اپنی جگہ مگر اُس کی بے عملی نے کم از کم دہشت گردوں کی واضح نشاندہی کردی ہے۔ جس طرح سوات کے آپریشن میں قوم حکومت اور فوج کے ساتھ تھی اسی طرح اس آپریشن کے لئے قوم اب یکسو ہوگئی ہے۔ ہم نے بھی بہت دنوں تک چپ کا روزہ رکھا مگر دہشت گردی کی حد ہوتی ہے اور اب بس۔ اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر دہشت گردوں کو موقع فراہم کررہی ہے تاکہ الیکشن کو ملتوی کرنے کا اُسے سبب بنایا جاسکے اور ساتھ ساتھ حکومت ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اس ناکامی کی ذمہ داری ڈال رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے گرفتاریاں کریں اور عدلیہ کسی ضروری قانون کی عدم موجودگی میں قاتلوں کو رہا کردے تو پھر ملک کیسے چل سکتا ہے۔
بیشتر اسٹرٹیجک امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ کوئٹہ اور کراچی میں دہشت گردی کی وارداتیں دراصل پاکستان کا چین کی کمپنی کو گوادر کی بندرگاہ کا دینا اور ایران گیس پائپ لائن بچھانے سے تعلق ہے۔ ہم نے یہ بات 2 سال پہلے لکھ دی تھی کہ جیسے جیسے ہماری ایران کے ساتھ دوستی بڑھے گی ویسے ویسے شیعہ برادری حملوں کی زد میں آئے گی کیونکہ کچھ تنظیمیں عراق و ایران جنگ کے دوران بنی تھیں تاکہ پاکستان اور ایران کو قریب نہ آنے دیا جائے۔
اس کے علاوہ مصر سے پاکستان تک مسلمانوں کو صفایا کرنا اور مسلمان ممالک کی نئی سرحد بندی کرنے کا منصوبہ بھی روبہ عمل ہے جس کو پاکستان، ایران، چین، روس کے ساتھ مل کر ناکام بنایا جاسکتا ہے اور ہمارا خیال ہے کہ پاکستان اس طرف پیش قدمی کرچکا ہے۔ اغیار اگر ہمارے ملک کو ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس منصوبے کو بلوچستان ہی میں دفنا دیں گے۔
تازہ ترین