• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بھی عجب اور اجنبی دوست ہے۔ کسی دور دراز علاقے سے فون کرتا ہے اور چند ایک فقرے میرے کانوں کے ذریعے دل میں اُتار کر اللہ حافظ کہہ جاتا ہے۔ آج صبح موبائل کی گھنٹی بجی، دل نے کہا وہی ہوگا۔ فون کان کو لگایا تو السلام علیکم کہہ کر فرمانے لگا ڈاکٹر صاحب آج کل ساری قوم غصے میں ہے۔ جب لیڈر اور دانشور غصے میں ہوں تو ساری قوم غصے میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ میرے رب کا فرمان ہے ’’جو غصہ پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ ’’اللہ حافظ‘‘ اور فون بند ہو گیا۔ میں سوچنے لگا کہ غصہ پینے اور دوسروں کو معاف کرنے کے لئے وسیع الظرف اور ’’بڑے‘‘ دل کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ ہماری سیاست نے ظرف چھوٹے اور دل نفرت کے تنور بنا دیئے ہیں۔ جن کو اللہ کی خوشنودی درکار ہوتی ہے، وہ غصہ پیتے اور قصور معاف کرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی خوشنودی تسبیح انگلیوں میں سجانے اور دانے گرانے سے حاصل ہوتی ہے حالانکہ اللہ کا فرمان ہے کہ میں تسبیح کے دانے گننے سے کہیں زیادہ خوش اعمال سے ہوتا ہوں اور انہی اعمال میں غصہ پینا اور دوسروں کو معاف کرنا شامل ہے۔

اجنبی دوست کی بات پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ ہمارے سارے سیاستدان اور حکمران غصے سے بھرے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم میانوالی گئے تو اسپتال کا افتتاح کرنا تھا لیکن سارا وقت میاں نواز شریف پر غصہ نکالتے رہے۔ ان کی تقریر ٹیلی وژن پر سنتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سامنے بیٹھے حاضرین اور تقریر سننے والے سامعین کو نفرت کے انجکشن لگا رہے ہیں۔ وہ تو تقریر کر کے فارغ ہو جاتے ہیں لیکن اس کے بعد وزراء میں نفرت کی قوالی کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یوں ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات نفرت کے پیامبر بن گئے ہیں کیونکہ حزبِ مخالف بھی اس مقابلے میں حکومتی ترجمانوں کو لتاڑنے کے لئے اسی نفرت کا ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ ہر طرف نفرت کے گونجتے ترانے عوام کے کانوں سے اتر کر دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں اور صوبائیت کا روگ بن جاتے ہیں۔ جس نجی محفل، مذاکرے یا فنکشن میں جائیں اسی طرح کی ذہنی کیفیت اور نفرت کی تقسیم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مان لیا کہ نفرت کا یہ پیغام پھیلانے میں نیب نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے کیونکہ الزامات کی بارش کے باوجود آج تک کسی بڑے سیاستدان پر کوئی بڑا الزام ثابت نہیں ہوا۔ الزامات کی بازگشت، اخباری انکشافات اور اعلانات سنتے ڈیڑھ سال گزر گیا لیکن وہ اربوں کی خورد برد، کرپشن کی خوفناک کہانیاں اور منی لانڈرنگ کے قصے ابھی تک سارے محض افسانے ہیں حالانکہ اب تک نیب کو ’’نامور‘‘ اسکینڈلز کے ثبوت مہیا کرکے عدلیہ اور عوام کو مطمئن کر دینا چاہئے تھا۔ نیب کے اربوں کی ریکوری کے دعوے ڈبل شاہ جیسے کرداروں اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے فراڈ کے گرد گھومتے ہیں جبکہ عوام امریکہ، انگلستان، یو اے ای، فرانس، اسپین وغیرہ میں قومی لوٹ مار کے ذریعے خریدی جائیدادوں کی اندرونی کہانیوں اور کرپشن کے ثبوت مانگتے ہیں۔ اسی سلسلے کی کڑی محض الزامات لگا کر بڑی چھوٹی مچھلیوں کی گرفتاری ہے۔ بہت سے حضرات عرصے سے نیب کی حوالات اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں لیکن آج تک کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ جب تک نیب محض پکڑ دھکڑ سے خوف پھیلاتا رہے گا اور الزامات ثابت نہیں کرے گا نفرت کی یہ لہر اسی طرح پھیلتی رہے گی اور انتقام کا تاثر مزید مضبوط ہوتا رہے گا۔ چیئرمین کی تقریریں اور ہوا کا رخ بدلنے کی ’’خوشخبریاں‘‘ کسی صورت بھی عملی کارکردگی کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔ پھر جب وزیراعظم ہر ’’موقع بہ موقع‘‘ اپوزیشن پر نام لے لے کر نفرت کے تیر برسانے لگیں تو کون کم عقل اسے احتساب سمجھے گا، یہ تو انتقام ہی لگے گا مانا کہ کرپشن کا خاتمہ اور احتساب آپ کے منشور کا نمایاں وعدہ تھا لیکن کیا دشمنام طرازی سے کرپشن ختم ہوتی ہے یا احتساب ہو سکتا ہے؟ کرپشن کا سمندر حکومت کی نگاہوں کے سامنے بہہ رہا ہے لیکن یہ وہ کرپشن ہے جس سے ہر شہری کو ہر روز پالا پڑتا ہے۔ کوئی محکمہ یا سرکاری ادارہ ایسا نہیں جہاں رشوت دیئے بغیر کام ہوتا ہو۔ بُری گورننس کی ذمہ داری نالائق حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے اضلاع کو ممبران صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے حوالے کر دیئے ہیں جو اپنی مرضی اور پسند کے ڈی سی اور ایس پی سے لیکر اے سی اور پٹواری تھانیدار تک لگواتے ہیں۔ پسندیدہ بیورو کریسی صرف اپنے لگوانے والے کے احکامات بجا لاتی ہے اسے عوام کے مسائل حل کرنے، انصاف دینے، ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے غرص نہیں ہوتی۔ اس تقسیم کے سبب حکومت کے مخالفین کا نہ جائز کام ہوتا ہے اور نہ شنوائی۔ نتیجے کے طور پر نفرت کی خلیج پھیلتی چلی جاتی ہے بیوروکریسی خوف کے دبائو کے تحت بددل اور ’’خوشامدی‘‘ ہو جاتی ہے۔ وہ مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے بجائے تماش بین بن جاتی ہے اور دل ہی دل میں حکومت سے ’’بغاوت‘‘ کرنے لگتی ہے نوبت ایں جا کہ شاید ہی کسی افسر کو اپنی سیٹ پر چند ماہ سے زیادہ بیٹھنا نصیب ہوا ہو۔ بلاضرورت اور بےتحاشا تبادلوں نے نہ صرف حکومتی خزانے پر بیجا بوجھ بڑھا دیا ہے۔

اب تو یوں لگتا ہے جیسے نفرتوں کی فصل پک چکی ہے۔ جب کوئی رجحان، احساس، یا نظریہ دانشوروں کی تحریروں اور ٹی وی تجزیہ کاروں کی گفتگو پر حاوی ہو جائے تو یہ فصل پکنے کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔ کسی بےانصاف، زیادتی یا انتقامی کارروائی کے خلاف قلم اور آواز اٹھانا ہر دانشور کا فرض ہے لیکن جب اس بےانصافی کو صوبائیت کا رنگ دیا جائے اور لفظوں کے ذریعے اصولی بات کرنے کے بجائے علاقائی زہر پھیلایا جائے تو سمجھ لیجئے کہ نفرت ملک و قوم کے باطن میں سرایت کر گئی ہے اور یہ قومی یکجہتی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔ لکھاریوں، غوروفکر کرنے والوں اور قومی دانشوروں کا کام زخموں پر مرہم رکھنا ہے نہ کہ زخم لگانا، ان کا فرض نفرت کے سامنے بند باندھنا ہے نہ کہ اسے پھیلانا۔ مجھے تو ٹھنڈے دل و دماغ والے دانشور بھی حکمرانوں کی مانند غصے کا شکار لگتے ہیں۔ سچ پوچھو تو اس منظرنامے نے مجھے بہت سے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔

تازہ ترین