• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قبلہ بڑے شاہ صاحب خوابوں سے متعلق کسی خاص علم پر دسترس نہیں رکھتے ۔ وہ محض اپنے تجربے کے زور پر آپ کے خوابوں کی تعبیریں بیان فرماتے ہیں ۔ آپ کا عاجزانہ سا دعویٰ ہے #
تم نے تو صرف خواب دیکھے ہیں
ہم نے ان کے عذاب دیکھے ہیں
شاہ جی کے تجربے کی روشنی میں اپنے خوابوں کے عذاب ملاحظہ کیجئے ۔
خواب: جناب شاہ صاحب ! بہت سال پہلے میں نے ایک مشہور عالم خواب دیکھا تھا۔ میرا یہ خواب برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام سے متعلق تھا،جہاں وہ مکمل مذہبی ، سیاسی ،معاشی آزادی اور خودی کی دولت کے ساتھ جی سکیں ( اٰلہ آباد کے مقام پر میں نے اس ریاست کے خدوخال عرض کیے تھے ) مجھے تابہ امروز اپنے خواب کی تعبیر کا پتہ نہیں چل سکا ۔ کچھ آپ ہی بتائیے کہ میرا وہ خواب کیا ہوا؟
تعبیر:واجب العزت بزرگوار! خدا آپ کے درجات بلند کرے ۔ آپ کی خلد آشیانی روح کے لیے خوشخبری ہے کہ آپ کے باکمال خواب کو لاجواب تعبیر مل گئی ہے ۔ ہر طرح سے ”آزاد“ اسلامی جمہوری فلاحی مملکت وجود میں آ چکی ہے ، جہاں لوٹ مار، فراڈ، اٹھائی گیری، ضمیر فروشی ، ملاوٹ، ڈاکہ زنی ، رشوت، قرضے ہڑپ کرنے ، بم دھماکے اور قتل و غارت وغیرہ کی مکمل آزادی ہے ۔ نیز کیا آبلہ ء مسجد ، کیا تہذیب کے فرزند، سب لہو گرم رکھنے کی خاطر انتشار پھیلانے میں آزاد ہیں ۔
آپ کی روح کے ایصال ثواب کی خاطر علم و آگہی وغیرہ پر کوئی خاص وقت ضائع نہیں کیا گیا ، البتہ فولادی مومنوں نے افزائش نسل کے ارفع مقصد پر بھرپور توجہ مرکوز رکھی ۔ یہ محنت شاقہ ثمر بار ہوئی اور کراں تابہ کراں پھیلا ایک انبوئہ بے منزل وجود میں آ چکا ہے ، جس کا ہر فرد خودی کی دولت سے بہرہ مند یعنی ”خودسر“ ہے ۔ مزید آپ کو نوید ہو کہ آپ کے کلام کی روح کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے ”شاہینوں“ نے پہاڑوں کی چٹانوں میں ہی بسیرا کر رکھا ہے ، جہاں پر بم دھماکوں کے پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔ نیز آج جب یورپ کے رندے مریخ کی مٹی کھود کر دھول اڑا رہے ہیں ، یہاں آپ کے حکم کے مطابق ستاروں پر کمند یں ڈالنے کا کام زور و شور سے جاری ہے ( مراد فلم اور ٹی وی کے ستارے ہیں) سوئے ادب نہ ہو تو عرض کریں کہ سلطانی جمہور کے غوغا ایسے فتنوں سے ہم آپ سے بھی زیادہ باخبر نکلے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کی بیخ کنی کے لیے ہم نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ہے ۔ مرحبا! یقینا آپ کی روح کو تسکین ملے گی کہ ہماری جبینوں پر بیک وقت عبادتوں کے نشاں بھی ہیں اور آمروں کے ہمراہ سات پھیروں کے قشقے بھی ۔
اے حکیم الامت ! مبارک باشد کہ آپ کے خوابوں کے جزیرے میں اسلام کو مکمل نافذ کرنے کے بعد روشن خیالی کی طرف سفر جاری ہے ۔اگرچہ اُمہ ہم بھیک منگوں کو گھاس نہیں ڈالتی ، لیکن قوت ایمانی کے بل بوتے پر نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر، اُمہ کی قیادت کا ٹھیکہ ہم نے اپنے ہاتھوں میں ہی رکھا ہوا ہے کہ ”ملتا نہیں ہے ویزا ، سارا جہاں ہمارا“ لہو گرم رکھنے کے ایک اور بہانے کے طور پر فرقہ واریت کی لازوال بہار میں کفر کے فتوؤں کے رنگا رنگ لالہ و گل خوب کھلائے جا رہے ہیں ۔ دولت کو فتنہ تصور کرتے ہوئے اس کا ارتکاز چند ہاتھوں میں کردیا گیا ہے جبکہ باقی امت کو کون و مکاں کے اسرار و رموز پر غور کرنے کے لیے اس فتنے سے آزاد کردیا گیا ہے ۔ آپ کی مسلم لیگ ترقی کرتے کرتے ”مسلم لیگ قائداعظم گروپ“ تک پہنچ گئی ہے ۔ امید واثق ہے کہ آئندہ جب بھی کسی آمر کر سرکاری لیگ بنانے کی حاجت ہوئی ، انشاء اللہ آپ کا نام نامی اسم گرامی ”اٹیچ“ کر کے اسے ” مسلم لیگ علامہ اقبال گروپ“ کے نام سے سرفراز کیا جائے گا۔
یا حبیبی ! ہمیں خوشی ہے کہ آپ جنت کے مکیں ہیں ۔ وگرنہ ہمارا ایمان تو قیامت کی ایسی چال چل چکا ہے کہ اگر آپ حیات ہوتے تو کچھ عجب نہیں کہ بقول آپ کے آپ کی ذات گرامی پر کیے جانے والے اعتراض ” ہے اس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا“ کو بنیاد بنا کر کوئی فرزند توحید خود کش جیکٹ پہنے آپ کے قریب آتا اور براہِ راست جنت کی راہ لیتا۔ آخر میں بصد معذرت عرض ہے کہ ”گلیمِ بو زر و دلقِ اویس و چادرِ زہرہ“ تو بڑی چیزیں ہیں ، ہمارا بس چلے تو آپ کا تاریخی حُقہ بھی چرا کر بیچ کھائیں ۔
خواب: میں نے ایک آزاد ریاست کے بانی کی حیثیت سے وہاں جمہوریت، آزادی ،مساوات، انصاف ،بنیادی حقوق اور قانون کی بالا دستی کا خواب دیکھا تھا ۔ یہاں جنت میں فرشتے مجھے میرے مزار پر دن رات لگنے والے رش کا تو بتاتے ہیں ، لیکن جب میں ان سے اپنے خواب کی تعبیر کا پوچھتا ہوں تو وہ کھسیانے سے ہوکر نظریں چرانے لگتے ہیں ۔ کیا آپ میرے خواب کی تعبیر کے متعلق کچھ بتا سکتے ہیں ؟
تعبیر:محترم قائدعظیم! فردوس بریں میں آپ کے درجات بلند ہوں ۔ جہاں تک آپ کے مزار پر لگنے والے رش کا تعلق ہے تو وہ وہاں فاتحہ پڑھتے ہوئے فوٹو بنوانے والے زعمائے ملت اور انواع و اقسام کے پریمی جوڑوں کا ہوتا ہے ۔ ہر دو گروہ اپنی ”پیشہ ورانہ سرگرمیوں“ کے لیے آپ کے مزار کو موزوں ترین مقام تصور کرتے ہیں ۔
رہی بات آپ کے خواب کے تعبیر کی تو تکلف بر طرف قائد! ماڑی پور کے فٹ پاتھ پر آپ کی ایمبولینس کیا خراب ہوئی کہ ہماری تو چاندی ہو گئی ۔ کاش آپ اپنی جیب کے کھوٹے سکوں اور اپنے ثانیوں کے کمالات دیکھ سکتے تو عش عش کر اٹھتے کہ آپ کا ملک بیک وقت ایٹمی طاقت بھی ہے اور کشکول بدست بھی ۔ حضور والا! آپ کی روح کو آزار پہنچانا مقصود نہیں لیکن معاف فرمائیے کہ آپ کے خواب کو آپ کے افکار کی روشنی میں من و عن تعبیر دینے میں بڑی قباحتیں پوشیدہ تھیں ۔ الحمداللہ! ہم نے بروقت یہ خطرہ بھانپ کر آپ کے افکار کی اصلاح کا باریک کام شروع کردیا ہے ۔ نمونے کے طور پر عرض ہے کہ مناسب قطع و برید کے ذریعے آپ کے حکم ”کام ،کام او ر بس کام“ کو ”آرام، آرام اور بس آرام“ اور ”ایمان ،اتحاد، تنظیم “ کو ”بے ایمانی، انتشار، بد نظمی“ ایسی نئی جہات سے روشناس کرایاگیا تاکہ باعزت طور پر دنیا کی مہذب قوموں کی صف میں اپنی جگہ بنائی جا سکے ۔ ایک مرد مومن نے تو آپ کی ایسی نایاب ڈائری بھی برآمد کرلی ، جس کے مطالعہ کے بعد آپ مبینہ طور پر مارشل لاء کے حامی نظر آتے ہیں ۔
ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر آپ اپنی زندگی میں آمریت کے اتنے دشمن کیوں تھے ؟ اس راز کا کھوج لگانے کے لیے ہم نے 33برس تک دشت آمریت کی سیاہی کی ۔ تلخ نوائی معاف ! ہمیں تو اس نظام میں کوئی خراب نظر نہ آئی ، سوائے اس کہ آدھا ملک ہاتھ سے نکل گیا ، باقی تو کچھ بھی نہ بگڑا۔ تاہم آپ کا دل رکھنے کی خاطر ہم نے کئی دفعہ آمریت کے راستے میں ” دیوارِ چین“ کھڑی کی مگر صد افسوس کہ وہ ہر دفعہ ٹھیکیداروں کی بے ایمانیوں اور ناقص میٹریل کی و جہ سے گر جاتی ہے ۔ اس کے باوجود ہم نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا ہے ، چاہے وہ ضمیر کی قربانی ہی کیوں نہ ہو۔ اس مقصدِ اولیٰ کی خاطر لوٹا کریسی ، نظریہ ضرورت اور نظریہ شرارت ایسے عجوبے متعارف کرائے گئے ہیں ، جن پر دنیا انگشت بدنداں ہے ۔ اپنے نمائندوں کے چناؤ کے معاملے میں ہم بہت ہی سخت اور میرٹ پسند واقع ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہم نے خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر جناب کی ہمشیرہ محترمہ کو بھی اپنی نمائندگی کی بارگاہ میں داخل نہ ہونے دیا۔
پس قصہ مختصرکہ مختصر ہی بھلا، ضمیر کی خلش اور روح کے آزار سے آزاد ترقی کا سفر اس شان سے جاری ہے کہ ”نے ہاتھ باگ پر ، نہ پاہے رکاب میں “ …برسبیل تذکرہ! ہم آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور کوئٹہ کا ہزارہ قبیلہ تو بہت ہی زیادہ …عالی جاہ! نہ آپ کے خواب کا کوئی مول ہے ، نہ اس کی تعبیر کا کہ #
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابو ں کی طرح
دل پہ اترے ہیں وہی خواب عذابوں کی طرح
تازہ ترین