• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئندہ عام انتخابات میں جو بھی سیاسی جماعت حکومت بنائے گی اس کیلئے سب سے بڑا چیلنج بلوچستان کی دگر گوں صورتحال کوٹھیک کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کے پانچ سال کے دوران اس صوبے کے حالات بے انتہا خراب ہوئے ہیں یہاں کی سویلین مشینری نااہل اور بددل ہے، ڈر اور خوف میں مبتلا ہے اور کام کرنا ہی نہیں چاہتی۔ وزیر اعلیٰ صرف ایک مذاق تھے جو زیادہ وقت اسلام آبادمیں گزارتے رہے۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کی بگڑتی صورتحال کے بارے میں وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جس کی ضرورت تھی۔ اپنی معمول کی پالیسی کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے اس صوبے کے بارے میں بھی وہی رویہ اختیار کیا جو کراچی کے بارے میں تھا یعنی کشت وخون ہو ہو کر حالات خود ہی ٹھیک ہو جائیں ۔ اس سے زیادہ بے حسی شاید پاکستان میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ سارا زور شاطرانہ سیاسی چالوں پر ہی رہا کہ کس طرح پانچ سال پورے کرکے تاریخ میں نام لکھوا لیں کہ جو ”کارنامہ “ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو نہ کرسکے وہ صدر زرداری نے اپنی ذہانت اور دانشمندی سے کر دکھایا۔ تاہم ان سب باتوں کے ذمہ دار صرف اور صرف صدر محترم ہیں وہ کسی سے گلہ نہیں کرسکتے ہیں کہ ان کے پاس اختیار نہیں ۔ جو کام بھی وہ اپنے سیاسی مفادات کیلئے کرنا چاہیں کرلیتے ہیں مگر جب بلوچستان اور کراچی جیسے علاقوں کے حالات ٹھیک کرنے ہوں تو وہ کیسے اخیتارات نہ ہونے کا عذر پیش کرسکتے ہیں۔ اگر بلوچستان میں فرنٹیرکور (ایف سی) کو بہت اختیارات حاصل ہیں اور اس پر سویلین حکومت کا کنٹرول نہیں تو بھی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہی ہیں کیونکہ یہ اختیارات انہوں نے ہی اس فورس کو دیئے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ سیکورٹی ایجنسیاں بلوچستان میں مکمل ناکام رہی ہیں اگر تمام اختیارات ہونے کے باوجود وہ دہشت گردی پر خاطر خواہ انداز میں قابو نہیں پاسکیں تو ذمہ دار بھی وہی ہیں اور جواب دہ بھی ۔ بدقسمت ہزارہ کمیونٹی کے مطالبے پر بلوچستان کو فوج کے حوالے کرنا بھی دانشنمدانہ اقدام نہیں ہوگا کیونکہ مسئلے کا حل صرف اور صرف ڈنڈا ماری نہیں ہے۔ ڈنڈے کے ساتھ ساتھ بات چیت بھی ہونی چاہئے جس کیلئے ضروری ہے کہ ملک سے باہر رہنے والے ناراض بلوچ رہنماؤں سے رابطہ کیا جائے۔باقی رہا سوال دہشتگردوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا خصوصاً ان عناصر سے جو ہزارہ کمیونٹی کو مار رہے ہیں تو وہ تو کسی بھی نرمی کے حقدار نہیں۔ یہ ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ طاقت سے ان کا خاتمہ کریں۔ ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کو بلوچستان کے بارے میں حکمت عملی پر از سر نو غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ باوجود اس کے کہ نااہل وزیراعلیٰ کو چلتا کیا گیا اور گورنر راج لگایا گیا ہے حالات میں کوئی واضح بہتری نہیں ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل خرابی کی جڑ کو نہیں کاٹا گیا۔ حالات کو ٹھیک کرنے کیلئے گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی کو بہت زیادہ سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔ اگر اس صوبے کے حالات اسی طرح ہی رہے تو سب سے بڑا سوال جو اس وقت بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا بلوچستان میں عام انتخابات ہو سکیں گے۔یہ تو ممکن نہیں ہوگا کہ اس حصے میں الیکشن موخر کردیئے جائیں ۔ اب جب کہ گوادر پورٹ کا آپریشن چین کے حوالے کر دیا گیا ہے خدشہ ہے کہ وہ ممالک جو اس کے سخت مخالف ہیں بلوچستان میں بے چینی اور افراتفری پھیلانے کیلئے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کریں گے مگر ہمیں چاہئے کہ ہم آستین کے سانپوں پر نظر رکھیں اور انہیں آہنی ہاتھوں کچل دیں۔ اگر اپنا گھر ٹھیک ہوگا تو باہر سے مداخلت ممکن نہ ہوگی۔
اب چند الفاظ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)کے تازہ اقدام کے بارے میں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بار پھر اپوزیشن جماعت بن گئی ہے۔ وہ بھی صرف بیس دن کیلئے جو موجودہ حکومت کے باقی رہ گئے ہیں۔ تو کون اس کے حزب اختلاف بننے کو اصلی اور حقیقی سمجھے گا۔ گزشتہ پانچ سال موجودہ حکومت میں رہنے اور اس سے قبل پرویزمشرف کے پورے دور میں برسراقتدار رہنے کے بعد اب اسے اپوزیشن کی سوجھی ہے۔ بلاشبہ ایم کیو ایم بڑی سمجھدار جماعت ہے جو اپنے مختلف تھنک ٹینکس کی آراء کی روشنی میں چلتی ہے۔ مگر اس کے موجودہ فیصلے کے اصل محرکات اتنے واضح ہیں کہ عام آدمی بھی انہیں بڑی آسانی سے سمجھ گیا ہے۔ حکومت سے ایک بار پھر اور اس کی پانچ سالہ مدت کے دوران آخری بار علیحدہ ہونے کیلئے ایم کیو ایم نے کوئی ٹھوس اور مدلل جواز پیش نہیں کیا وہی پرانی شکایات جو اس سے قبل بھی وہ ہزار بار کرچکی ہے۔ تاہم یہ ابھی دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ اپوزیشن بننے کے فیصلے کی وجہ سے اپنے اصلی مقاصد حاصل کرسکے گی یا نہیں۔کیا اس کا ٹارگٹ پیپلزپارٹی سے مل کر اپنی مرضی کا سندھ میں نگراں وزیراعلیٰ لانا ہے۔ آئین کے مطابق موجودہ وزیر اعلیٰ اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف باہمی مشاورت سے نگراں وزیراعلیٰ کا انتخاب کریں گے۔ حزب اختلاف بن کر ایم کیو ایم اپنا اپوزیشن لیڈر لانا چاہتی ہے تاکہ وہ یہ آئینی کردار حاصل کرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ وفاق میں بھی اپوزیشن پارٹی ہونے کے حوالے سے نگراں وزیراعظم کو مقرر کرنے میں دوسری حزب اختلاف کی جماعتوں سے مل کر رول ادا کرنا چاہتی ہے۔ تاہم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم کے نئے رول کو نہیں مانتے اور نہ ہی وہ اس سے کسی قسم کی مشاورت کریں گے۔سخت رد عمل کے بعد ایم کیو ایم نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے حالانکہ وہ ایسے مواقع پر سخت جواب دینے میں مشہور ہے۔ بے شمار لوگوں کی یہ سوچ بے جا نہیں ہے کہ ایم کیو ایم نے حکومت چھوڑنے کا فیصلہ صدر زرداری سے مشاورت کے بعد کیا ہے کہ سندھ اسمبلی میں اصل حزب اختلاف جو پیر پگاڑا کی مسلم لیگ فنکشنل اور ڈاکٹر ارباب غلام رحیم گروپ پر مشتمل ہے کو اس کے آئینی کردار سے روکا جائے اور ایم کیو ایم کے نامزد ممبر کو قائد حزب اختلاف بنا دیا جائے۔ یہ سارا کھیل آئین میں دئیے گئے نگراں وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے طریقے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے بعد بھی ایم کیو ایم کا اتحاد پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی ہوگا کیونکہ مسلم لیگ نواز ابھی اس سے الائنس کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔ دونوں میں بڑی سخت تلخیاں موجود ہیں۔
تازہ ترین