• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی پر ماتم کناں اقوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس روش سے ان کے پرانے زخم مندمل ہونے کے بجائے ہرے ہوتے ہیں۔ جب یہ ہرے ہوتے ہیں تو نفرتیں نئی صورت میں جنم لیتی ہیں اس طرح نفرت سے محبت کرنے والے عالمی سوداگر چھوٹی بڑی جنگوں کو ہوا دے کر نیوکلیئر ہتھیاروں کو فروخت کر کے منافع کماتے ہیں اور امپیریل کنٹرول کو پائیدار بناتے ہیں پھر ہم نفرتوں کو بڑھا کر محبت کی خوشبوئیں پھیلا نہیں سکتے۔ اس طرح صرف بارود کی بو ہی پھیلے گی۔ اس رویّے اور سوچ کو ہم اس طرح تبدیل کر سکتے ہیں یہ مشاہدہ کرتے ہوئے کہ ہم کن چیزوں سے محبت کرتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں، بجائے اس کے کہ ان عوامل کو تباہ کرنے پر ہر وقت تیار رہیں جن سے ہم نفرت کرتے ہیں اور ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ادب سے محبت کرنے والے انسان دوستوں نے لٹریچر فیسٹول کا اہتمام کیا اور ہندوستان کے صف اول کے شاعر گلزار شرکت کے لئے کراچی تشریف لا رہے تھے نہ جانے کیا ہوا اچانک ان کے نہ شرکت کرنے کی خبر عام ہوگئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بتائی گئی کہ سرحدوں پر کشیدگی کے باعث دونوں جانب کئی سپاہی مارے گئے، کہیں ردعمل کے طور پر کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو حالانکہ یہ ممکن نہیں ہے دوسری جانب گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ وہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے شرکت سے معذرت چاہتے ہیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ محبت اور امن سے پیار کرنے والا کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا اس لئے وہ ایسا کہہ رہا ہے لیکن نفرت سے محبت کرنے والے خوشی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ان کے لئے بارود کی بو افیون کی صورت اختیار کر کے ان کو سرشار کرتی ہے اس سرشاری میں پھر آدمی درندگی کو بھی مات دے دیتا ہے اب یہ کام ادب اور فلم کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں امریکہ نے پہلے تو حصہ لینے سے انکار کر دیا اور امریکی عوام بھی خوش تھے کہ وہ جنگ جیسی نفرت ترین سرگرمی سے گریز کر رہے ہیں لیکن اسلحہ سازوں اور جنگ میں کام آنے والے تیل کے سوداگروں کے لئے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ دنیا کو تباہ کر کے اسے لوٹیں چنانچہ نفرت سے محبت کرنے والوں نے ایک دستاویزی فلم بنائی اس پروپیگنڈہ فلم میں دکھایا کہ امریکہ کے ایک سفری بحری جہاز میں جانے والوں کو جرمنوں نے تباہ کر دیا اور ہزاروں لوگ مارے گئے اور پھر لگاتار نفرت آمیز پروپیگنڈہ کیا گیا چنانچہ امریکی عوام جو ایک ماہ پہلے تک جنگ سے نفرت کا اظہار کر رہے تھے اب انتقام کے لئے بے تاب ہوگئے۔ امریکہ نے نہ صرف دونوں عالمی جنگوں میں حصہ لیا بلکہ راک فیلر کی صنعتوں کے تیل سے جرمنی اور برطانیہ کے تباہ کن جہاز اڑان بھرتے تھے۔ کسی بھی مذہب کا عقیدہ رکھنے والے یہ بھی جانتے ہوں گے کہ کائنات کے بنانے والے نے سیارہ ارض کو اس لئے تخلیق کیا کہ اسے جنت ارضی بنایا جائے تاکہ بنانے والے کا یہ سیارہ امن و محبت کا مثالی سیارہ بنے۔ اسے تباہ کرنے والے تخلیق کار کی تخلیق کو تباہ کرنے کے لئے شب روز کوشاں ہیں جو یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ کائنات کے تخلیق کار اور اس کی بنائی ہوئی ہر شے کے دشمن ہیں۔ نفرت سے محبت کرنے والے صرف انسان پر انسان کی بالادستی چاہتے ہیں اسی لئے سرمایہ داروں، اجارہ داروں اور سٹہ بازوں کے لئے جمہوریت کے بجائے غلامی موزوں ہے۔
تاریخ اقوام عالم کے اوراق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ جدید غلامی پرانی غلامی سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ پرانی غلامی میں آقا غلام پر اس قدر تشدد کرتا تھا کہ وہ زندہ رہے اور اس کے کام آ سکے یہ الگ بات ہے کہ اس کا خاندان گروی ہوتا تھا وہ جو چاہے کر سکتا تھا لیکن جدید غلامی میں تو اجارہ داروں نے منافع کے لئے بچوں اور عورتوں کا کاروبار بھی شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان میں بھٹہ مزدوروں کی کہانی مذکورہ کاروبار سے بھی زیادہ بہیمانہ ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ فاتح یہ سمجھتا ہے کہ مفتوح کے ساتھ ہر زیادتی کرنا اس کا حق ہے ۔ عصر حاضر میں جدید غلامی کے منظر نامے میں دنیا کے دانشور دیکھ رہے ہیں کہ تھائی لینڈ میں خاص طور پر دنیا بھر سے لائی ہوئی لڑکیاں کس طرح فروخت ہوتی ہیں۔ جب ان لڑکیوں کو ”ایڈز“ جیسی موذی بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو انہیں سستے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے جہاں تھوڑے عرصے میں وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے لیکن رسد جاری رہتی ہے دوسری جانب تمام ملٹی نیشنلز کمپنیوں کے بڑے برانڈز تیسری دنیا کے مضافات میں مزدور بچوں، بچیوں سے دن رات کام کراتے ہیں جس سے انہیں کئی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اور وہ مر جاتے ہیں لیکن جدید غلامی کے دور میں رسد بہت ہے اس لئے منافع خوروں کو کوئی پروا نہیں بلکہ وہ لاشوں اور اموات ہی سے زیادہ کماتے ہیں۔ نفرت سے محبت کرنے والے گھر گھر بھی تعصب کی دیواریں بنانے میں مشغول رہتے ہیں۔ اس بارے میں امرتاپریتم نے اپنی کتاب رسیدی ٹکٹ میں ایک غور طلب مثال پیش کی ہے ملاحظہ کیجئے۔ ”رسوئی میں نانی کی حکومت ہوتی تھی سب سے پہلی بغاوت میں نے اس کی حکومت میں کی تھی۔ دیکھتی تھی باورچی خانہ کی ایک پڑچھتی پر تین گلاس، باقی برتنوں سے الگ تھلگ، ہمیشہ ایک کونے میں پڑے رہتے تھے یہ گلاس صرف اس موقع پر زیریں چھت سے اتارے جاتے تھے جب والد کے مسلمان دوست آتے تھے اور ان کو لسی، چائے پلانا ہوتی اور اس کے بعد مانجھ دھو کر پھر وہیں رکھ دیئے جاتے تھے۔ سو تین گلاسوں کے ساتھ میں بھی چوتھے گلاس کی طرح شامل ہوگئی اور ہم چاروں نانی کے ساتھ لڑ پڑے وہ گلاس بھی باقی برتنوں کو نہیں چھو سکتے تھے۔ میں نے بھی ضد پکڑ لی کہ میں کسی دوسرے برتن میں نہ پانی پیوں گی نہ دودھ چائے۔ نانی ان گلاسوں کو الگ رکھ سکتی تھی مگر مجھ کو بھوکا یا پیاسا نہ رکھ سکتی تھی یہ بات والد تک پہنچ گئی والد کو اس سے قبل معلوم نہ تھا کہ کچھ گلاس اس طرح علیحدہ رکھے جاتے ہیں۔ ان کو پتہ چلا تو میری بغاوت کامیاب ہوگئی پھر نہ کوئی برتن ہندو رہا، نہ مسلم“۔ اس مثال سے یہ بھی مدنظر رکھا جائے کہ اس بے رحم دنیا میں خوبصورتی ہر جگہ چھپی ہوئی ہے اسے معلوم کرنا ہے جو شاعروں، ادیبوں، مصوروں، موسیقاروں اور سائنس دانوں کا کام ہے کہ وہ انسانی فلاح کے لئے اسے تسخیر کریں۔ البتہ جاہل سائنس دانوں کی طرح نیوکلیائی ہتھیار دریافت نہ کریں۔ ابتداء میں، میں نے لکھا تھا کہ ادب اور فلم کے ذریعے بھی نفرت کو پھیلایا جاتا ہے۔ مابعد جدیدیت کے ذریعے ابہام پیدا کر کے سرمایہ داری کو بالواسطہ فروغ دیا جا رہا ہے مثلاً بودلیئر، فرائیڈ کا تصور انسان، ابن عربی رینے گینوں سے یکسر مختلف تھا۔ نسائی شعور کی علمبردار کیتھرین مینسفیلڈ لارنس کی تحریروں کو حقارت سے دیکھتے ہوئے انسانیت کے لئے خطرہ قرار دیتی ہیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ جمالیات سے مبرا ادب بھی انسان دوستی کی طرف مائل نہیں کرتا۔ شاعر پرسی شیلے نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”جو موسیقی میں نے سنی وہ اچھی ہے، جو میں نے نہیں سنی وہ اس سے بھی اچھی ہے“ یعنی ابھی خوبصورت لے سُر انتظار میں ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ خوبصورتی کو تلاش کریں اس کی پرورش کریں تاکہ نفرت سے محبت کرنے والوں کو شکست دے سکیں۔
دنیا بھر میں حکمران اور عوام بھی ایٹمی طاقت بننے پر فخر کرتے ہیں یہ وہ دریافت ہے جس سے انسان تو انسان کرہٴ ارض بھی تباہ ہو جائے گا جس کی تخلیق ہستی ماورا نے کی پھر سروے کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت نے ایٹمی طاقت بننے کی حمایت کی ہے۔ یہ سروے ان لوگوں سے کیا جاتا ہے جو بیروزگار ہیں یا اپنا نام نہیں لکھ سکتے، انہیں یہ علم نہیں کہ یہ انسانیت کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ دراصل دنیا کے بالادست طبقے نہیں چاہتے کہ غریب دنیا شعور سے لیس ہو کیونکہ اس میں ان کی موت پوشیدہ ہے۔ کسی نے عوام کو بتایا کہ ”تھرمل بلاسٹ“ کیا ہے؟ ریڈیائی لہروں سے کتنی تباہی ہو سکتی ہے؟ اگر انسانی ہلاکت خیزی کے ہتھیار نہ بنائے جائیں اور سرمایہ کاری کی فسوں کاری ختم ہو تو دنیا سے غربت ختم ہو سکتی ہے۔ سرمایہ داری اور نیوکلیائی ہتھیار ہزاروں سال کی دنیا کو کسی ایک دن کسی ایک رات تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے نہ سوچا تو جارج ارویل کے ناول اینمل فارم کی طرح جانور نما آدمی اس سیارے سے انسانوں کو بے دخل کر دیں گے۔
تازہ ترین