• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری جنگ عظیم کے بعد تیزی سے بین الاقوامیت کا جو ظہور ہوا اور جیسے نظریاتی عالمی سیاست کی کیمپنگ کی شکل میں 5عشروں پر محیط جو سرد جنگ شروع ہوئی، اس کے آغاز میں ہی کئی ملک آزاد ہوتے ہی اس عالمی نظریاتی سیاست میں سرگرم ہوگئے۔ 

اس طویل عالمی معرکے کے اصل چوہدری تو بلاشبہ امریکہ اور سوویت یونین ہی تھے لیکن کئی کئی ملکوں کے کور گروپس، جیسے نیٹو، سیٹو، سینٹو اور وارسا پیکٹ کے ساتھ ہر دو کی تقسیم اور تنائو بہت واضح اور مسلسل رہا۔ عملی شکل میں بین الاقوامیت کا ظہور ہوتے ہی گہرے دو طرفہ تعلقات کی شکل اس پر حاوی ہو گئی۔ 

اس تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات گہرے اور نظریاتی جنگ کے حوالے سے مثالی رہے کہ پاکستان کی جیو پولیٹکل حیثیت کو امریکہ نے سوویت وارم واٹرز تک پہنچ کی تھیوری کو ناکام بنائے رکھنے میں بڑی ہوشیاری اور انہماک سے استعمال کیا۔ 

تاہم پاک بھارت جنگِ ستمبر کے بعد باہمی مفاد کے حامل پاک امریکہ تعلقات میں فلیکچوئیشن پیدا ہو گئی اور یہ اتار چڑھائو مشرف دور تک جاری رہا لیکن اب اس کی شکل وہ نہ تھی جو پہلے دو اڑھائی عشرے میں رہی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد واشنگٹن، پاک امریکہ تعلقات سے کہیں زیادہ اپنی جنوبی ایشیا کی پالیسی بنانے لگا جس میں اس نے بش اوّل کے دور سے ہی نیو ورلڈ آرڈر کے تناظر میں بھارت کو اہمیت دی اور پاکستان تیزی سے امریکی تعلقات کے حوالے سے پسِ پردہ جانے لگا۔ 

حتیٰ کہ واشنگٹن نے پاکستان سے مکمل طوطا چشمی اختیار کر کے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دیا اور بش جونیئر، کلنٹن اور اوبامہ کے ادوار میں اس کی یہ ہی پالیسی جاری رہی، تاہم 9/11کے بعد اچانک پاکستان پھر امریکہ کے لئے اہمیت اختیار کرگیا لیکن اس بار فقط فرنٹ لائن پارٹنر کے طور پر، اور اس حیثیت میں بھی اس پر طرح طرح کے دبائو اور مخصوص نوعیت کے اختلافات کے ساتھ پاکستان تعلقات نبھانے پر مجبور ہو گیا۔ 

پاکستان کو ڈیڑھ عشرے تک جو ناقابلِ تلافی معاشی نقصان دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سرگرم حلیف بننے سے ہوتا رہا اس کا کوئی مداوا نہیں تھا، حتیٰ کہ پاکستان کی سرحدی چوکی سلالہ پر امریکی حملہ کرکے پاک آرمی کے دسیوں فوجی شہید کئے گئے۔ 

اسی عرصے میں امریکہ کے نزدیک سمجھوتہ ایکسپریس کو نذرِ آتش کرنا اور گجرات کا قتل عام دہشت گردی نہیں تھا، دوسری جانب عافیہ صدیقی کا کمسن بچوں کے ساتھ اغوا اور بعد کی تکلیف دہ صورت، جو پاکستان کے عوام کے لئے سخت ذہنی تکلیف کا باعث ہے، ریمنڈ ڈیوس کا لاہور کی شاہراہ پر دو شہریوں کا قتل، اسے دبائو سے بچا لے جانے کے لئے امریکہ کی ٹاپ انتظامیہ کا آئوٹ آف دی وے دبائو، حتیٰ کہ صدر اوبامہ کی طرف سے قاتل کے سفارتی اسٹیٹس اور قانون کی غلط تشریح اور غلط موقف نے پاکستانیوں کو امریکہ سے بہت دور کر دیا۔

حکومت، حکومت تعلقات میں پاکستان جتنا بڑا امریکی حلیف اور معاون نظر آ رہا تھا اتنا ہی بھارت اور افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی سے پاکستان کے جانی نقصان نے ان پاکستانی عوام کو امریکی حکومت ہی نہیں بحیثیت مجموعی امریکہ سے اتنا ہی دور کر دیا جتنا وہ سرد جنگ میں امریکہ کے قریب اور حلیف تھے۔ 

آج پاکستان رائے عامہ کا واضح تاثر یہ ہی ہے کہ امریکہ کے بعد اب اسرائیل بھی بھارت کو اپنا فطری حلیف سمجھتے ہوئے بےبنیاد دشمنی پر اترا ہوا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو کھلی اور مجرمانہ عسکری معاونت کا مرتکب ہو رہا ہے۔

ایسے میں امریکہ اور اس کے حلیفوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان دورانِ سرد جنگ بھی اپنی خارجہ پالیسی میں اتنا اسمارٹ ضرور رہا ہے کہ اس نے اپنے دفاع و سلامتی کے حوالے سے مکمل انحصار کوئی امریکہ پر ہی نہیں کیا تھا، اسی عرصے میں اسلام آباد نے چین سے اپنے دو طرفہ تعلقات کو ناصرف مثالی بنایا بلکہ امریکہ سے دوستی اور اتحادی کے تمام بنیادی تقاضے نبھاتے ہوئے اس کے چین سے گورنمنٹ، گورنمنٹ، پیپلز، پیپلز اور ملٹری، ملٹری ریلیشنز میں اضافہ ہوتا رہا اور دونوں ملک ایک دوسرے کے اچھے وقت اور ترقی میں شریک اور برے وقت میں سچے ساتھی و معاون رہے۔

اب جبکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد آزاد سینٹرل ایشیا، روس کی عالمی سیاست میں تازہ ذہنی پھر سب سے بڑھ کر چین کی تیز تر اور حیرت انگیز اقتصادی اُٹھان اور ان سب کے پاکستان سے گہرے تعلق کے حوالے سے اسلام آباد کا جو جیو اکنامک اسٹیٹس بن رہا تھا، اس کو امریکہ خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس سے آگے کوئی پالیسی نہ بنا سکا کہ اس نے بھارت کو افغانستان میں پاکستان کا متبادل مانتے ہوئے بڑے بڑے ڈیزاسٹر کئے، جس کا پاکستان بُری طرح شکار ہوا لیکن دوسری جانب چین اور پاکستان سی پیک جیسی پُرامن، سیاسی و اقتصادی استحکام کے اقدامات پر برین اسٹارمنگ کرتے رہے۔

جب یہ عمل میں ڈھلی اور سی پیک کا باقاعدہ اعلان اور آغاز ہونے لگا تو امریکہ اور بھارت کا حسد کھل کر سامنے آگیا جو دھمکیوں میں ڈھلا لیکن یہ دھمکیاں رکاوٹ نہ بن سکیں، عملدرآمد جاری رہا تو اب بہت دیر میں، جبکہ اسلام آباد اور پاکستانی دونوں امریکہ کے پاکستان پر ناروا دبائو اور بھارت کو کھلی چھوٹ اور ہمارے خلاف دہشت گردی پر امریکی خاموشی سے بھارت کی حوصلہ افزائی کو بڑے تحمل و صبر سے برداشت کرتے رہے جو سب کچھ لاحاصل رہا۔ 

بھارت جس رنگ میں آج سامنے آیا ہے اور جس طرح امریکہ کا پکا اور فطری اتحادی اسرائیل کا استعمال کرکے مقبوضہ کشمیر کو مقبوضہ ہی رکھنے کا آخری تجربہ کررہا ہے، اس پر صدر ٹرمپ سب کچھ جانتے ہوئے جس طرح بھارت کے انسانیت کے خلاف جرائم پر اپنا ردعمل ثالثی کی بےنتیجہ پیشکشوں سے زیادہ نہیں بڑھا رہے۔ 

اس ماحول میں سی پیک کے سودے میں پاکستان کے نقصانات کی نشاندہی اور پاکستان کو اس کی تفصیلات پر بریفنگ کتنی عجب ہے، سارے پسِ منظر کو سامنے رکھا جائے تو اسلام آباد ہی نہیں پاکستان کا بحیثیت قوم ردِعمل بھی پاک چین دوستی اور ایک دوسرے پر اعتماد اتنا پختہ ہے کہ سی پیک میں کچھ بےقاعدگیوں، کچھ چھوٹی موٹی خامیوں، غلط فہمیوں کو ختم کرنے کی دو طرفہ گنجائش کے ساتھ، اس موضوع پر حکومتی جماعت تحریک انصاف اور اس کی احتساب سے معتوب جماعت ن لیگ کے رہنما ایک ہی پیج پر ہیں۔ 

امریکہ کی دیر آید، کوئی درست آید نہیں ہے۔ اس کی Cold Intellectual Calculations بالآخر غلط ثابت ہوئیں۔

تازہ ترین