• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’روٹی بینک‘ غریبوں کے لیے مسیحا بن کر سامنے آیا

محمد اسلم

پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے، جہاں 29.5 فی صد آبادی غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے. جنہیں زندہ رہنے کے لیے کھانا دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ عوام کے مصائب کا سفر نہ کبھی رکا اور نہ کبھی تھما، جبکہ مصائب کی یلغار کی بنیادی وجہ ہماری مالی اور معاشی بدحالی ہے۔ستم ناقابل برداشت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان حالات میں عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول دن بدن دشوار ہوتا جا رہا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق، پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے، جہاں 29.5 فی صد آبادی غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے. جنہیں زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے،ایسے حالات میںشہر کراچی میں روٹی بینک ایک مسیحا بن کر سامنے آیا ہے. دوسرے تمام بینکوں سے ہٹ کر، یہ بینک امیروں سے پیسہ یا کھانا جمع کرتا ہے اور ضرورت مندوں میں کھانا تقسیم کرتا ہے۔

اس کا مقصد، غریب طبقے کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنا ہے۔ملکی تاریخ کا پہلا خدمت خلق میں اپنی مثال آپ ہے۔یہ بینک اگست 2017میں قائد کے علاقہ نمائش چورنگی پر قائم کیا گیا ،جس میں رقم کے لین دین کی بجائے روٹی اور کھانے کا لین دین کیا جاتا ہے جو کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔اس بینک سے ضرورت مند جب چاہئیں دو وقت کا کھانا لے جا سکتے ہیں اور جن کے پاس شادیوں میں اپنی ضرورت کے بعد کھانا بچ جائے وہ یہاں’ جمع‘کرا سکتے ہیں۔اس’ روٹی بینک ‘کی ایک اور خاصیت مفت’ ہوم ڈلیوری ‘بھی ہے اور وہ بھی پوری طرح راز داری کے ساتھ۔ اس بینک کے قیام کا مقصد سفید پوش لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ 

شہر میں جگہ جگہ دسترخوان لگتے ہیں جہاں راہ گیر وں کو مفت کھانا کھلایا جاتا ہے لیکن کچھ ’وائٹ کالرز ‘سڑک کنارے بیٹھ کر کھانے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کسی جاننے والے سے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔۔یہ ’روٹی بینک ‘انہی وائٹ کالر ز یا سفید پوش لوگوں کی مدد کے لئے کھولا گیا ہے۔ یہاںکوئی بھی وائٹ کالر یا ضرورت مند شخص اپنا اور اپنی اہلیہ کا شناختی کارڈ اور بچوں کا برتھ سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی جمع کرا کے دونوں وقت کا کھانا اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے ۔ ہر فیملی کی فائلبنائی جاتی ہے اور پوری راز داری برتی جاتی ہے روٹی بینک ‘کراچی کی ایک رفاعی تنظیم سیلانی ٹرسٹ نے شروع کیا ہے ۔

جہاں بڑے پیمانے پر ایک کچن قائم ہے، جہاں دونوں وقت کھانا بنتا اور باقاعدہ کمرشل انداز میں پیک ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے ہر دوپہر اور شام کو’ روٹی بینک ‘بھیج دیا جاتا ہے، وہاں سے ضرورت مند اسے لے جاتے ہیں یا پھر گھروں پر ارسال کردیا جاتا ہے۔ ایک دن میں تقریباً گیارہ سو افراد کا کھانا تقسیم کیا جاتا ہے ۔ یہ تمام خرچ لوگوں کی جانب سے ملنے والے چندے اور امدادی رقم سے پورا ہوتا ہے ۔ بےشمار لوگ فی کس کے حساب سے بھی روزانہ کی بنیاد پر رقم دے جاتے ہیں۔ 

ایک فرد کے کھانے کے 50روپے لیے جاتے ہیں اس لحاظ سے کوئی دس تو کوئی پندرہ اور بعض لوگ اس سے بھی کہیں زیادہ افراد کے کھانے کے لئے نقد رقم دے جاتے ہیں۔روٹی بینک کا مینیو تبدیل ہوتا رہتا ہے، جس میں بریانی، چکن، مٹن قورمہ، قیمہ، سبزی اور دالیں بھی شامل ہیں.کراچی میں ضرورت مندوں کو مفت کھانا کھلانے کے لئے ایک دو نہیں متعدد رفاعی تنظیمیں اور ادارے کام کررہے ہیں۔

روٹی بینک کے حوالے سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بے شک بھوکے کو روٹی کھلانا بہت بڑی نیکی ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں اس کوشش میں ہم معاشرے کے افراد کو کھانے کی مفت سہولتیں دے کر انہیں ان کی ذمے داریوں سے راہ فرار کا موقع دے رہے ہوں؟ ‘ نوجوانوں میں محنت کرنے کا جذبہ کم ہو جائے گا، خاص طور سے بچے ۔۔کم عمری سے ہی مفت کانے کےعادی ہوجائیں گے، ان میں اپنا مستقبل بنانے، حالات کو بدلنے اور اپنے لئے باعزت روزگار کے مواقع تلاش کرنے کا جذبہ ہی ختم ہو جائے گا۔ 

وہ شروع ہی سے دوسروں کے کندھوں کے عادی ہوجائیں گے ۔اس نکتہ نظر پر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انسان کا پیٹ خالی ہو تو جرائم کی راہ نکلتی ہے ۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ بے روزگاری بہت بڑا عذاب ہے، بچے بھوک سے بلک رہے ہوں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ۔ اگر مفت د سترخوان سے معاشرے کے لوگوں کی خود انحصاری کی عادت ختم ہونے کا خدشہ ہے تو بہت سے سنگین مسائل بھی تو حل ہورہے ہیں۔

انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسر چ انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن کی جاری کردہ’ گلوبل ہنگرانڈیکس‘یعنی جی ایچ آئی‘2017کے مطابق پاکستان کو غذائی قلت کی شکل میں سنجیدہ خطرے کا سامنا بتایا گیا تھا اور آنے والے برسوں میں صورت حال سنگینی کی پیشن گوئی بھی کی گئی تھی۔ غذائی کمی اور بھوک کا شکار 119 ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 106 ہے، جبکہ انڈکس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی شرح یا اسکور اسے ’خطرناک‘ کیٹگری کی جانب لے جا رہا ہے۔

سفید پوش افراد کا کہنا ہے کہ روٹی بینک ہماری مدد کر رہا ہے اور یہاں سے کھانا لے جانے میں ہمیں بالکل بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔

تازہ ترین