• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن اگر گھبرا گیا تو پھر کسی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں۔ فخرو بھائی اگر اس بات سے ڈرتے رہے کہ کہیں کوئی سیاستدان انکے خلاف کوئی بات نہ کر دے، اُن کو متنازعہ نہ بنا دے تو پھر کسی بہتری کی امید رکھنا بے کار ہے۔ الیکشن کمیشن نے اگر اپنی آزادی اور خودمختاری کو ٹیکس چوروں، جعلی ڈگری والوں، لٹیروں اور بہروپیوں کو روکنے کے لیے استعمال نہ کیا تو پھر ایسی آزادی اور خودمختاری کے حصول کا عوام کو کیا فائدہ۔ ایک بات ثابت ہو گئی کہ کوئی سیاسی پارٹی اپنے درمیان موجود گندے انڈوں کو سیاست سے باہر کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ایسے گھوڑوں کی تلاش ہے جو ان کو انتخابات کی ریس جتوا سکیں۔ پارلیمنٹ کے اندر جماعتوں کا حال تو سب کے سامنے ہے یہاں تو تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والے عمران خان اور ان کی پارٹی بھی ان معاملات میں ایسے وقت خاموش ہے جب بولنا انتہائی ضروری ہے۔ لگتا ہے دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف بھی ٹیکس چوروں اور جعلی ڈگری والوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہو چکی ہے۔یہ حقیقت سب پر عیاں ہو چکی کہ جعلی ڈگری والوں کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں متحد ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال پاکستان پیپلز پارٹی کو سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی اور حکم عدولی کے طعنے دینے والی مسلم لیگ ن ڈگریوں کی تصدیق سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمدرآمد کے خلاف سب سے پیش پیش ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تین سال قبل الیکشن کمیشن کو تمام ممبران پارلیمنٹ کی ڈگریوں کو تصدیق کرنے کے لیے احکامات صادر کیے تھے مگر ہنوز یہ کام تشنہ تکمیل ہے۔ اس کی اصل وجہ قومی و صوبائی حکومتوں اور ممبران اسمبلی کا عدم تعاون تھا۔ اب جبکہ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے کو ہیں تو الیکشن کمیشن نے جعلی ڈگریوں سے متعلق احکامات پر عمل کرنے کے لیے 249 ممبران پارلیمنٹ کو خط لکھا مگر بجائے اس کے کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جاتا، پارلیمنٹ کے اندر ایک ایسا شور برپا کیا گیا کہ سب کے سب الیکشن کمیشن کے خلاف ایک ہو گئے۔ اپنی ریپوٹیشن کے برعکس چوہدری نثار علی خان نے یہاں تک کہہ دیا کہ کمیشن پارلیمنٹ اراکین کی پگڑیاں اچھال رہا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے فوراً ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی تا کہ الیکشن کمیشن سے اس مسئلہ پر بات کر کے مک مکا کیاجا سکے۔ پارلیمنٹ میں موجود حکومت و اپوزیشن کے اس ایکے نے فخرو بھائی پر ایسا خوف طاری کر دیا کہ گھبراہٹ میں پہلے چوہدری نثار علی خان کو فون کر کے معافی تلافی کی اور بعدازاں اخبار نویسوں کو کہا کہ 249 پارلیمنٹیرینز کو اپنی ڈگریاں 15 یوم میں جمع کروانے کے لیے لکھے گئے خط کی کمشن نے منظوری نہیں دی تھی۔ شاید فخرو بھائی سیاستدانوں کے اس شدیدحملے کی وجہ سے بھول گئے مگر الیکشن کمیشن کا سرکاری ریکارڈ اس بات کی تصدیق کررہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے مطابق اور تمام متعلقہ افسران کی منظوری کے بعد 7 فروری کو الیکشن کمیشن نے یہ خط جاری کیاجس میں متعلقہ ممبران پارلیمنٹ کو کہا گیا کہ اگر وہ 15 یوم میں اپنی ڈگریاں تصدیق کے لئے جمع نہیں کرائیں گے تو ان کی ڈگریوں کو جعلی قرار دے دیا جائے گا۔ اسی بنا پر الیکشن کمشن نے پہلے ایک وضاحت جاری کی کہ کمیشن ڈگریوں کی تصدیق کے مسئلہ پرپوری طرح سنجیدہ ہے اور یہ کہ اس سلسلے میں اُٹھائے گئے اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ مگر اس وضاحت کے اگلے ہی روز جب اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ249 ممبران میں سے 223 ممبران اسمبلی نے اپنی تعلیمی دستاویزات جمع نہیں کروائیں اور الیکشن کمیشن کے سات فروری کے خط کی رو سے ایسے ممبران کی ڈگریاں جعلی تصور کی جائیں گی تو الیکشن کمیشن نے ایک اور پینترا بدلتے ہوئے یہ بیان جاری کر دیا کہ پندرہ دن کی ڈیڈلائن اُس دن سے شروع ہو گی جب متعلقہ ممبران اسمبلی کو کمیشن کا خط موصول ہو گا۔ اب کوئی فخرو بھائی سے پوچھے کہ جناب اب کون سا رکن اسمبلی اس خط کو وصول کرے گا اور یقیناً جن ممبران اسمبلی کی ڈگریاں جعلی ہیں وہ تو خط وصول کرنے کی غلطی کبھی کر ہی نہیں سکتے۔حقیقت میں کمیشن نے پارلیمنٹ میں موجود جعلی ڈگری والوں کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ اسمبلی کی مدت کو پورا ہونے تک مزے کریں اور اگلے انتخابات کی تیاری کریں۔ اگر ایسا نہیں تو الیکشن کمیشن کو یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ ان ممبران اسمبلی میں سے کوئی بھی آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا اہل اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ 2008 کے انتخابات کے وقت ظاہر کی گئی اپنی ڈگریوں کی تصدیق نہ کروا لے۔پہلے ہی پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو انتخابی امیدواروں کی اسکروٹنی کے لیے تیس دن دینے کی تجویز کو متفقہ طور پر رد کر دیا اور اس مقصد کے لیے صرف چودہ دن دینے کی منظوری دی ہے۔ یہ منظوری حکومت اور اپوزیشن نے یک زبان ہو کر دی۔ اس پر بھی الیکشن کمیشن خاموش رہا اور کوئی شکایت تک نہ کی۔ کمیشن کے اس تعاون کو دیکھتے ہوئے کوئی بعید نہیں کہ پارلیمنٹ منظوری دیتے وقت اسکروٹنی کے وقت کو سات دن ہی مقرر کر دے تا کہ الیکشن لڑنے والوں کی جانچ پڑتال ہو ہی نہ سکے اورالیکشن کمیشن کی اصلاحات صرف بحث و مباحثہ تک ہی محدور رہیں۔ اسکروٹنی کی مدت اور ڈگریوں کی تصدیق کے معاملات میں تو الیکشن کمیشن ہتھیار ڈال چکا جس کی وجہ سے اب یہ خطرہ ہے کہ صدر مملکت الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی فارم (Nomination paper)میں تجویز کردہ ایسی تبدیلیوں کو بھی رد کر دیں گے جو ٹیکس چوروں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس معاملہ میں بھی حکومت اور اپوزیشن میں ایکا ہونے کا امکان ہے کیوں کہ ٹیکس چور تقریباً ہر پارٹی میں موجود ہیں۔ ٹیکس چوروں کی تو تحریک انصاف میں بھی کمی نہیں۔ اسی لیے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر کوئی سیاسی جماعت ان اصلاحات کے حق میں بات نہیں کر رہی۔ سب کا معاملہ ایک جیسا ہے۔ کوئی بھی انتخابات کے نام پر ہونے والے فراڈ کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر کوئی میڈیاہاؤس الیکشن اصلاحات کی بات کرے گا تو اس کو جمہوریت کے خلاف سازش تصور کیا جائے گا۔ اس لیے خبردار اگر کسی نے جعلی ڈگری والوں، ٹیکس چوروں، قوم کی دولت لوٹنے والوں اور بہروپیوں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روکا۔
تازہ ترین