• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلین اینڈ گرین پاکستان انڈیکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا تو اِس بہانے اسلام آباد یاترا کا موقع مل گیا اور جناح کنونشن سنٹر کی راہ پکڑی۔ یوں وزیراعظم عمران خان کی دلچسپ باتیں قریب بیٹھ کر سنیں۔ 

وہ فرما رہے تھے کہ جو اقوام اپنی نسلوں کا نہیں سوچتیں وہ برباد ہو جاتی ہیں، ہم لوگ غلط ٹریک پر چلے گئے ہیں اس لیے ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ ہمیں پاکستان کی قدر کرنی چاہئے۔ خدا نے پاکستان کو سر سبز و شاداب بنایا ہے۔ درخت کم ہونگے تو پالوشن بڑھے گی۔

 کبھی لندن جیسے شہر میں بھی پالوشن تھی مگر وہاں اِس قدر درخت لگائے گئے ہیں کہ اب لندن صاف شفاف بن چکا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب لاہور پالوشن اور آلودگی کی وجہ سے اس حد تک خراب شہر ہو گیا ہے کہ نہ صاف پانی ہے اور نہ شفاف فضا۔ پچھلے دس برسوں میں لاہور کے 70فیصد درخت کاٹ دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔ ہم نے اپنے دریاؤں میں سیوریج پھینک کر انہیں بھی آلودہ بنا دیا ہے۔

پاکستان کو صاف شفاف اور سرسبز و شاداب بنانے کا فوری تقاضا یہی ہے کہ نہ صرف صفائی ستھرائی کے لیے کچرے کے ڈھیروں کو اٹھوایا جائے بلکہ پھلدار اور پھولدار پودوں کے ساتھ گھنے درختوں کو محض کاغذوں یا فائلوں پر نہیں، وسیع زمینوں پر لگوایا اور اگوایا جائے۔ 

کلین گرین مہم میں پودے لگوانے کے بعد ان کی حفاظت یا رکھوالی کا کوئی اہتمام بھی ہونا چاہئے، بہرحال موجودہ حکومت کی یہ بہت اچھی اسکیم ہے کہ 12منتخب شہروں میں صفائی و شادابی کے حوالے سے مسابقت یا مقابلے کی دوڑ شروع کی جا رہی ہے اور جو اعلیٰ کارکردگی دکھائے گا وہی انعام و احترام کا حقدار قرار پائے گا۔

یہاں محکمہ لوکل گورنمنٹ اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کی بیورو کریسی مجتمع تھی سو مختلف اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں اور آگہی کا موقع ملا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سب پاکستان کو کلین اور گرین بنانے کے لیے پُر عزم ہیں۔

 اُن میں پنجاب کے سیکرٹری انفارمیشن راجہ جہانگیر انور، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ ڈاکٹر احمد جاوید قاضی، کمشنر فیصل آباد محمود جاوید بھٹی اور ڈپٹی کمشنر لاہور دانش افضال نمایاں تھے۔ پنجاب حکومت اپنے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں کلین اینڈ گرین پنجاب کے لیے بھرپور کاوشیں کر رہی ہے۔ 

اِس کا مظاہرہ دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی اسی نیک جذبے کے ساتھ کرنا چاہئے بالخصوص کراچی جیسے بڑے شہر کی پہچان جس طرح عرصہ دراز سے جگہ بہ جگہ پھیلا کچرا بنا ہوا ہے اُسی طرح کے پی کی صورتحال بھی قابلِ اطمینان نہیں ہے۔ جناب مظہر برلاس کی وساطت سے ہماری ملاقات KPکے وزیر افضل خاں سے ہوئی تو درویش کا پہلا سوال پشاور کی میٹرو پر چہ مگوئیوں اور حیران کن تاخیر پر تھا جس کا خاں صاحب نے مفصل جواب دیتے ہوئے ملبہ بڑی حد تک عالمی ادارے پر ڈالا۔ 

مقصد کسی کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بنانا نہیں لیکن جذبۂ خود احتسابی سے جائزہ لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ یہیں کوہسار مارکیٹ میں صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان سے ملاقات کروائی گئی تو کہا کہ آپ کی تربیت تو جماعتِ اسلامی کے پاکیزہ ماحول میں ہوئی ہے بولے کہ آپ کے احسن اقبال اور جاوید ہاشمی جیسے دوستوں کی تربیت بھی وہیں ہوئی ہے۔ تربیت تو اس درویش کی بھی وہیں ہوئی ہے مگر سیکھنا تو کسی نے اپنے میلان کے مطابق ہی ہوتا ہے۔

کچھ دانشوروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور اسلام آباد کی غلام گردشوں میں ان دنوں جس نوع کی دلچسپ گفتگو چل رہی ہے اس سے مستفیض ہونے کا موقع ملا مگر سب سے خوبصورت ملاقات انڈین ایمبیسی میں نوجوان انڈین ڈپلومیٹ اکھیلیش سنگھ سے ہوئی جو جے پور کی راجپوت فیملی کے چشم و چراغ ہیں اور پاکستان میں اپنی سفارتی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ 

پاک ہند تعلقات ان دنوں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہیں اس لیے ہندوستان کے ہائی کمشنر جناب اجے بساریہ حکومتِ پاکستان کی ہدایت پر واپس جا چکے ہیں جبکہ ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہلو والیا بھی ان دنوں دہلی پدھارے ہوئے ہیں۔ مولانا وحید الدین خان دہلوی کو خداوند اچھی صحت کے ساتھ سلامت رکھے وہ چراغِ سحری ہیں اس لیے درویش کی تمنا ہے کہ اُن کی زیارت اور گفتگو سے مستفید ہونے کے لیے دلی یاترا کرے۔ 

حضرت مولانا اقوامِ عالم میں محبت دوستی اور عالمی سلامتی کے علمبردار ہیں اور ناچیز کی پہلی کتاب ’’اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب‘‘ کا تفصیلی دیباچہ انہوں نے دہلی سے لکھ بھیجا تھا اس لیے اُن کا ذاتی طور پر ممنون ہے۔ 

جناب اکھیلیش سنگھ کو بھی درویش نے حضرت مولانا صاحب کے متعلق تفصیل سے بتایا اور مہاتما گاندھی کے متعلق اپنی تمام تر نیاز مندی کے باوجود یہ نقطہ معترضہ اٹھایا کہ انہوں نے اقلیتی فرقوں کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے وسیع تر حمایتی اکثریتی طبقے کے ایک حلقے میں بدگمانی پیدا کروا لی۔

 جواب میں میرے ممدوح اس روشن خیال سفارت کار نے کیا خوبصورت الفاظ کہے ’’اُن کی جدوجہد اور لگن کسی مخصوص طبقے یا اقلیت کی خوشنودی کے لیے نہیں تھی بلکہ انصاف سچائی اور انسانیت کے حوالے سے تھی، انہوں نے وہ کیا جو سچائی اور سلامتی کا تقاضا تھا‘‘۔ 

اُن کی دوسری دلچسپ بات یہ لگی کہ جب بولے ’’ریحان جی! آپ لاہور میں کہاں رہتے ہیں‘‘؟ جواب دیا کہ ’’وحدت روڈ پر۔ آپ نے بابا نانک کے حوالے سے ’’وحدت‘‘ یا ایکتا کا مطلب تو سنا ہی ہو گا؟ مزید پوچھا کہ ’’آپ کا پچھلا گاؤں کونسا ہے‘‘؟ تو جواب دیا کہ ’’آپ نے ’’مرید کے‘‘ کا نام سنا ہوگا۔

گریٹ بدھا کے متعلق بھی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ اس ملاقات میں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ دنیا میں ایک یونیورسل سولائزشن یا عالمی تہذیب کی سوچ کتنی تیزی سے ابھر رہی ہے جس میں بالآخر انسانیت قوم پرستی کے جنون پر حاوی ہو جائے گی۔

تازہ ترین