• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن دنوں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بھارت اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے امن کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ بھارت اور اسرائیل اس وقت دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے نمبر ایک پوزیشن پر ہیں جن کا واحد مقصد اپنے اپنے خطوں میں دیگر ملکوں کے قدرتی وسائل پر قابض ہونا ہے۔ اُن کی جارحیت پسندی کی پشت پر امریکہ ہے، جس کی مکمل حمایت سے اُن دونوں ملکوں کا رویہ جارحانہ ہے۔ امریکہ ان ممالک کے ذریعے ان دونوں خطوں میں اپنے مفادات کے لئے کشمیر، فلسطین اور عرب ملکوں میں موجود قدرتی وسائل کو قابو کرنا چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں یقینی طور پر جو جنگ چھڑے گی وہ تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس ایٹمی جنگ سے ہونے والی تباہی، جانی اور مالی نقصانات سے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر دنیا کے سامنے آجائے گا۔ جنوبی ایشیا میں اصل کردار بھارت کا ہے جو کشمیر پر ظلم و تشدد، خواتین کی بے حرمتی سے قبضے کا خواب دیکھ رہا ہے، اس میں اسے کامیابی نہیں مل سکے گی۔ پاکستان کے عوام اور افواجِ پاکستان اُس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جانی اور مالی قربانیوں کو نظر انداز کرکے بھارت کو خطے کی سپر پاور بنانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی ایٹمی اور دفاعی صلاحیت کے آگے اُن کی دال نہیں ’’گل‘‘ رہی ہے۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے امریکی اشارے پر افغانستان، ایران، شام، یمن، کویت، اردن،

بحرین، سعودی عرب اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے اسلامی ملک لیبیا جیسے تیل کے وسائل سے مالا مال ملکوں پر قبضے کے لئے جارحیت کی ہوئی ہے مگر اس کو یہاں ایران کے ساتھ ساتھ ترکی اور اب قطر کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ کی صورت میں جلنے والے تیل میں ہر کوئی جھلس جائے گا۔ یہ جنگ مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی۔ اس وقت امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے لئے سب سے بڑا خطرہ پاکستان، چین، روس، ترکی اور ایران کے اتحاد کی شکل میں سامنے آنے والا طاقتور ’’بلاک‘‘ ہے جو مستقبل میں سب سے بڑا خطرہ ہوگا اور یہ رکاوٹ عبور کرنا ان کے لئے مشکل ترین ہدف ہوگا۔ دنیا کو تیسری عالمی اور خطرناک ایٹمی جنگ سے بچانے کے لئے اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کو اپنا (ڈمی) کردار فوراً ختم کرنا ہوگا اور غیر جانبدارانہ انداز میں ’’بولڈ‘‘ اور حقیقت پر مبنی فیصلے کرنا ہوں گے۔ بلاشبہ بڑی طاقتور قوت کی حیثیت سے امریکہ کو بھی اِن حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کے جارحانہ سازشی اور توسیع پسندانہ عزائم سے دنیا میں جو آگ بھڑکے گی اس کا نقصان خود امریکہ کو بھی جھیلنا پڑے گا کیونکہ جنوبی ایشیا مشرق وسطیٰ اور لیبیا میں اس کی پچھلے 15، 20برسوں کی جارحانہ کارروائیوں سے اس کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ کشمیر میں بھارتی اور فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے پسِ پردہ امریکی کردار پوری دنیا کے ضمیر کو جگا چکا ہے۔ بھارت کا ضرورت سے زیادہ دفاعی بجٹ، اپنے ملک میں مسلمانوں پر ریاستی تشدد کشمیر میں ظلم و ستم، اسی طرح فلسطین میں اسرائیلی جبر و ستم نے اُمتِ مسلمہ کے ساتھ ساتھ اقوامِ عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اِن دونوں خطوں میں امن کا دار و مدار امریکہ کے انسانیت کی بالادستی پر مبنی فیصلوں پر منحصر ہے ورنہ طبلِ جنگ بج چکا ہے، تیسری عالمی جنگ کا میدان تیار ہے۔

تازہ ترین