• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے وادیٔ وفا تیری کوکھ سے وفا کے دیوی دیوتا جنم لیتے ہیں، تیرے بطن سے علم و دانش کے چشمے پھوٹتے ہیں، تیری بیٹیاں عظمت و عزت کی نشانیاں، تیرے بیٹے جفا و وفا کے پیکر، جرأتوں کے امین، تیری پاک مٹی پر پیغمبروں کے قدموں کے نشان، تیرا وجود لاالہ الا اللہ، تیری تاریخ بہادری، جفا کشی کی داستاں، تیرے کوہ مراد سے ہماری امیدیں، مرادیں جڑی ہیں، تیرے وجود سے ہمارا وجود، تیری خوش حالی ہمارا نصیب، اے وادیٔ وفا تیرے صبر، تیری جرأتوں کو سلام، تیرے سنگلاخ خاموش پہاڑ، میرا دل چیرتے ہیں، تیرے ویران ریگستان مجھے اُداس کرتے ہیں، تیرے ماحول کی ویرانیاں میرے دل کا بوجھ بنتی جارہی ہیں، تیرے خاموش سوالیہ چہروں سے مایوسی جھلکتی ہے مگر اے وادیٔ وفا تو پھر بھی بڑی انمول ہے، تیرے نیلگوں سمندر کی لہروں میں زندگی چھلکتی ہے، میں جب کبھی بھی اُداس ہوتا ہوں تو تُو ہمیشہ اُمید بن کر میرے سامنے حقیقتوں کی مانند میری خوشی و راحت کا سبب بنے ہر سُو خوشیاں بکھیرتے کھڑی نظر آتی ہو۔ اے وادیٔ وفا تم سچ میں انمول ہو، تیری وفا کو دیکھتا ہوں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ تجھے تیری وفا کا صلہ محبت کی صورت ملے، تو کبھی کسی غیر کی محتاج ہو نہ تجھے کوئی دکھ ملے۔ تیرے گرد گرم ترین موسم میں بھی ٹھنڈی ہوا چلے، تجھے خدا کی رحمتوں کے سائے میسر ہوں، تیری ترقی کے بند دروازے دن رات کھلیں اور تجھے راحت کا حصار نصیب ہو، اے وادیٔ وفا تو قدم بہ قدم پاکستان کی پہچان بنے، تیرے بیٹے، تیری بیٹیاں دنیا پر راج کریں، میرے یہ جذبات کسی اور کے لئے نہیں اپنے ہی بلوچ بہن بھائیوں، بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے ہیں جن کے ساتھ زندگی میں پہلی بار ان کے ماحول میں تین دن گزارنے کا موقع ملا۔ ان کے جذبات سنے، ان کے احساسات جانے، ان کی دل کی خواہشیں اور مشکلات سنیں تو خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات میرے دماغ پر چھانے لگے۔ اس ملاقات کا سبب عزیز من ڈپٹی کمشنر کیچ (تربت) سکندر ذیشان بنے اور انہیں دیکھ کر ایسے محسوس ہوا کہ وہ ایک عام بیورو کریٹ نہیں بلکہ اسی دھرتی کے بیٹے ہیں اور وہ یہاں کے رہنے والوں کی ضرورتوں اور خواہشوں کو پورا کرنے کی ایسی ہی خواہش رکھتے ہیں جیسے ایک باپ اپنی اولاد کے مستقبل کے لئے فکر مند ہو۔ تربت یونیورسٹی میں دو روزہ سیمینار(مستقبل کے مواقع) کے دوران طلبہ و طالبات کی اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مندی، آگے بڑھنے کے مواقع نہ ملنے پر مایوسی، جدید ذرائع ابلاغ تک آزادانہ رسائی سے محرومی، ان کے سنہر ے مستقبل کی راہ میں حائل ہیں۔ وہ حب الوطنی، انا پرستی، عزم و ہمت، اعتماد کی جیتی جاگتی حقیقتیں ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں اور تمام پاکستانی نوجوانوں کی طرح آگے بھی بڑھنا چاہتے ہیں، ایک طرف ان کی سوچوں اور دلوں میں پاکستان بستا ہے تو دوسری طرف انہیں اپنی پسماندگی اور محرومیوں کا احساس بھی کھائے جاتا ہے۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے جھنڈے دنیا بھرمیں لہرانا چاہتے ہیں۔ ان کی پرواز اونچی، حوصلے چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ انہیں شاید یہ احساس کھائے جارہا ہے کہ کوئی ان کی اونچی پرواز کو ریموٹ کنٹرول سے قابو کرنا چاہتا ہے، وہ آزاد ہوائوں کے پنچھی گہرے سمندروں میں تیرنا چاہتے ہیں، ان کے ذہنوں میں بس ایک ہی سوچ ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں اور ہم کسی کے محکوم نہیں، بس ہمیں کھلی فضائوں میں پرواز کرنے دو۔ ان شاہینوں کے ساتھ گزرے وقت سے میرا یہ احساس گہرا ہوتا گیا کہ یہ جذبات احساسات کی جنگ صرف شفقت پدری سے ہی جیتی جا سکتی ہے۔ یہ بلوچ بچے، بچیاں ذہانت اور تخلیق کی انتہا کو چھوتے نظر آتے ہیں، انہیں اپنی مادری زبان بلوچی پر فخر ہے تو قومی زبان اُردو پر ناز، وہ دنیا کا سامنا کرنے کے لئے انگلش لکھنے اور بولنے پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ اگر وہ سوال کرنا جانتے ہیں تو وہ سوال کا اطمینان بخش جواب بھی چاہتے ہیں ان کے پاس ہر سوال کے ساتھ دلیل بھی ہے اور وہ آپ سے مکالمہ بھی چاہتے ہیں، وہ آپ سے کچھ نہیں مانگتے، انہیں مقامی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تعلیم، روزگار، آزادانہ اظہار رائے اور زندگی کے وہی یکساں مواقع چاہئیں جو تمام پاکستانیوں کا حق ہے۔ وہ امن و سکون کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں مگر احساس کمتری کے بوجھ تلے نہیں، وہ پس ماندہ ضرور ہیں لیکن ذہنی طورپر پس ماندگی کا شکار نہیں، ان میں شعور ہے، علم ہے مگر رہنمائی سے محروم ہیں، وہ کسی کے ممنون احسان نہیں رہنا چاہتے وہ خود دار ہیں، پیسہ مانگتے ہیں نہ روٹی، وہ اپنی محنت کی کمائی پر روکھی سوکھی پر گزارا کرسکتے ہیں مگر کسی کی محتاجی انہیں قبول نہیں، انہیں صرف اپنی صلاحیتیں منوانے کے مواقع چاہئیں۔ اللہ نے ان میں وہ وہ صلاحیتیں پیدا کی ہیں جو شاید ملک کے ترقی یافتہ شہروں کے طلبہ و طالبات میں بھی نہیں۔ خوش گوار حیرت کی بات یہ ہے کہ مخلوط نظام تعلیم کے باوجود طلبہ و طالبات کے درمیان روایتی احترام کا رشتہ بڑا مضبوط ہے، ماحول پاکیزہ، طالبات باقاعدہ برقع تو نہیں اوڑھتیں مگر اپنی روایات سے بھی غافل نہیں۔ خوب صورت بلوچی لباس انہیں اور زیادہ پاکیزہ اور حسین بنا دیتا ہے، طالبات کی اکثریت دوران تعلیم بھی اپنا روایتی بلوچی کڑھائی والا کُرتہ و شلوار پہنتی ہیں اور بلوچی کڑھائی والا روایتی دوپٹہ اوڑھنا انہیں پسند ہے، فارغ اوقات کے دوران گھروں میں خود اپنے ہاتھوں سے یہ خوب صورت کُرتے تیار کرتی ہیں اور بہت ساری طالبات ایسی بھی ہیں جو بلوچی دست کاریاں تیار کرنے کے بعد بڑے شہروں میں فروخت کے لئے بھی بھجواتی ہیں جن سے ان کے گھریلو اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں مدد ملتی ہے۔

بلوچی نوجوان خصوصاً خواتین بڑی پُر اعتماد ہیں۔ ان کا اندازِ گفتگو، دنیا فتح کرنے کی اُمنگ پُراعتماد پاکستان کا پیغام دیتی ہے، اسکول، کالج اور تربت یونیورسٹی کی ہر طالبہ کی یہ خواہش تھی کہ آپ ان کی صلاحیتوں، ہنر، ذہانت کو دیکھیں، پرکھیں، دنیا کو دکھائیں کہ مکران کی فضائوں میں ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے، جس کی کرنیں ہر سو پھیلتی نظر آتی ہیں۔یہ داستان وفا ابھی جاری ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین