• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانچ دریائوں کی دھرتی کی رونقوں کو پھر کسی کی نظر لگ گئی۔پانچ دریائوں میں سے ایک دریا خشک ہو گیا۔

احمد راہی ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر پنجابی ادب مکمل نہیں ہوتا، احمد راہی ہمارے ادبی حلقوں ہی میں نہیں بلکہ تینوں اہم ذرائع ابلاغ یعنی ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم کے حوالے سے بھی ایک مستند نام ہے۔

اس سینئر قلمکار کی کتاب ’’ترنجن‘‘ نے ادب کی تاریخ میں ان کا نام اک معتبر شاعر کی حیثیت سے منوا لیا۔

وہ پاکستانی فلمی صنعت میں اس وقت شامل ہوئے جب یہ صنعت ایک نوزائیدہ ملک میں بے پناہ مسائل اور محدود وسائل میں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ احمد راہی نے اس فن میں بھی بہت جلد اپنی منفرد حیثیت منوالی۔

ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو اس میں لاہور اورامرتسر نےایک اہم کردار ادا کیا اس وقت تمام پنجابی مسلمان اردو میں لکھ رہے تھے اور جب پاکستان بنا تو ہمارے پاس جدید پنجابی ادب کی کوئی روایت نہ تھی۔

ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر بہت سے مسلمان شاعروں اور ادیبوں نے اپنی مادری زبان میں بھی لکھنا شروع کیا۔ اس تحریک نے جہاں اور اعلیٰ وارفع کام کئے وہاں پنجابی ادب کو احمد راہی جیسا عظیم شاعر دیا۔

احمد راہی امرتسر میں پیدا ہوا اپنے ادبی سفر کے آغاز ہی میں سیف الدین سیف سے بے حد متاثر رہا۔ چونکہ اس زمانے یعنی ملک کی تقسیم سےپہلے تقریباً تمام مسلمان اردو کو ہی ذریعہ اظہار سمجھتے تھے اور یہ اسی سازش کا حصہ تھا جس میں پنجابی زبان پر موضوعات اور تفصیلات کے حوالے سے تنگ دامنی کا الزام تھا۔ اسے محض گلی کوچوں کی زبان سمجھا جاتا تھا اسلئےاحمد راہی نے ترنجن لکھ کر پنجابی ادب و زبان پر لگنے والے تمام الزامات رد کر دیئے۔

’’ترنجن ‘‘ ان دنوں پنجابی شاعری کی مقبول ترین کتاب بن گئی ۔لوگ اسے امرتا پریتم کی شاعری کی کتاب ’’نویں رت‘‘ کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ کئی برسوں تک ہم کبھی امرتا کے لفظوں میں اور کبھی راہی کے لفظوں میں آنسوئوں سے لکھی پنجاب کی خونی تاریخ پڑھتے رہے۔

رومانس میں ڈوبی کالی تاریخ پاکستان میں جدید پنجابی ادب کی ابتدا صفرسے شروع ہوئی، قیام پاکستان کے بعد ہمارے پاس احمد راہی کی ترنجن اور افسانوں میں نواز کی کتابــ’’ شام رنگی کڑی‘‘ کے علاوہ کچھ سرمایہ نہ تھا۔

راہی کی عظمت یہ ہے کہ اس نے پنجابی ادب کی کلاسیکی روایت کو چھوئے بغیر فسادات کے تجربے کو ایک نیا طرزِ اظہار دیا، نیا اس مفہوم میں کہ جن لوک دھنوں اور گیتوں کو اس نے انسانی غارت گری کے موضوع کے لئے استعمال کیا انہیں اس مفہوم میں پہلے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ راہی نے چھوٹے کینوس پر بڑا تجربہ کیا اور بلاشبہ کامیاب تجربہ کیا۔

اپنے اس تجربے کو انہوں نے فلم میں کیش کیا اور خوب کیا اور پھر وہیں کے ہو کررہ گئے۔ راہی کی شاعری میں زبردست جذباتی اپیل ہونے کے باوجود اس زمانے کے معروضی حالات میں جب کہ ملک سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کی آماجگاہ بن گیا تھا بدقسمتی سے کسی بڑی جدید پنجابی تحریک کی بنیادیں فراہم نہ کر سکی اس کی وجہ شاید ہمارے پنجابی ادب کےپانیوں میں سکون تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس دورمیں ان پُرسکون پانیوں میں ترنجن اور شام رنگی کڑی کے علاوہ ایک پتھر بھی نہ گرا۔

احمد راہی کی ترنجن یقیناً پنجاب اور پنجابی ادب کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں پہلا پتھر ثابت ہوئی یہی وجہ ہے کہ آج اسےایم اے کے کورس کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ 48 برس ادھر کی بات ہے میں نے ممتاز صحافی حمید اختر کے ریگل سینما لاہور میں واقع دفتر میں احمد راہی کا انٹرویو کیا۔

جس میں اپنوں نے اپنے ہم عصر ادیبوں، شاعروں کے تاریخی پس منظر ، گیتوں کی شاعری کے پس منظر، فلمی صنعت کا احوال اور تخلیق کاروں کے مسائل پر بہت سی باتیں لکھی۔ اپنوں نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتایا۔

میری ذاتی زندگی بھی عام لوگوں جیسی رہی ہے۔ سیدھی سادی سی، کوئی خاص واقعہ نہیں ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ جب میرے باپ کا انتقال ہوا تو ہماری معاشی حالات دگرگوں تھے۔

باپ کے مرنے کے ساتھ ہی ذریعہ آمدنی ختم ہو چکا تھا اگر اس وقت میرا بڑا بھائی ملازم نہ ہوتا تو شاید آج میں احمد راہی نہ ہوتا۔ صرف غلام محمد ہوتا۔ ترقی پسند ادب کے علاوہ احمد راہی کا اور میرا ساتھ فلم انڈسٹری میں بھی رہا۔ حمید اختر کی فلم پرائی آگ احمد راہی نے لکھی تھی جسےرضا میر نے ڈائریکٹ کیا تھا اس کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی۔

ایک بار خواجہ صاحب نے مجھے بتایا ’’اگر راہی ، ہیر رانجھا نہ لکھدا تے میں ایسی فلم نوں کدی ہتھ نہ پاندا‘‘

(اگر احمد راہی ہیر رانجھا فلم نہ لکھتے تو میں کبھی بھی یہ فلم نہ بناتا) 

امرتسر راہی کی بہت بڑی کمزوری بنا رہا وہ جب بھی ملتے کسی نہ کسی بات کے حوالے سے اپنے محبوب شہر کا ذکر ضرور کرتے۔ تقسیم کے بعد شاید ایک مرتبہ انہوں نے امرتسر کا عزم سفر باندھا تھا۔ بعد میں بھی اکثر وہ وہاں جانے کیلئے بلکتے رہے۔ بہت برسوں کا ذکر ہے جب اداکار بلراج ساہنی پاکستان آئے تو احمد راہی سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔

انہوں نے اپنی ملاقات کا ذکر کرتےہوئے کہا ’’ایک دن احمد راہی سے ملاقات طے تھی۔ وہ آئے میں ان سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ لیکن کبھی کبھی ان کی نظمیں اپنے یہاں کے پنجابی رسالوںمیں ضرور پڑھی تھیں۔

راولپنڈی چھوڑ کر آنے کا تازہ غم شاید انہوں نےمیری آنکھوں میں پڑھ لیا تھا اور پھر انہیں اپنا بچھڑا ہوا شہر امرتسر یاد آگیا جس کا جوگی پھیرا لگاتے ہوئےکچھ برس پہلے انہوں نے ایک مشہور نظم لکھی تھی۔

دیس والیو اپنے دیس اندر

اسی آئے ہاں وانگ پردیسیاں دے

گھر والیو اپنے گھر اندر

اسی آئے ہاں وانگ پرونہیاں دے

تازہ ترین