• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا حال بہت برا ہے مگر میں آپ کو ہفتہ وار قصّہ سنانے بیٹھ گیا ہوں۔ ویسے یہ قصّہ میں آپ کو کھڑے رہ کر بھی سنا سکتا تھا لیکن میں کھڑا نہیں ہوسکتا، میرے پیروں میں مہندی لگی ہوئی نہیں ہے کوئی اور وجہ ہے کہ میں کہیں آنے جانے کے قابل نہیں ہوں۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ میرا حال بہت ہی برا ہے۔ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ بالم عرف غریب عوام تیرا حال بہت ہی برا ہے اور یہ درست بھی ہے۔ مگر یہ تو بتا بالم صرف غریب عوام کہ تیرا حال کب خراب نہیں تھا۔ آپ نے درست فرمایا ہے۔ میرا حال کب خراب نہیں تھا؟ میں نے جب سے جنم لیا ہے میرا حال خراب ہی رہا ہے۔ میں اب چھیاسٹھ برس کا ہوں، اس قدر لمبا برا حال میں نے برصغیر کی تاریخ میں نہ دیکھا اور نہ پڑھا ہے ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میرا برا حال میرا ماضی کیوں نہیں ہو جاتا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں تاریخ میں منجمد ہوگیا ہوں؟ ٹھہر گیا ہوں؟ زمان مستقبل، زمان حال اور زمان ماضی میں آنکھ جھپکنے سے پہلے گزر جانے والا زمان حال ہوتا ہے۔ حال کو ماضی میں بدلنے کے لئے کرن کی رفتار سے کروڑوں مرتبہ کم وقت لگتا ہے مگر میرا حال چھیاسٹھ برس گزر جانے کے باوجود جوں کا توں ہے بلکہ میرا حال برے سے برا ہوتا جارہا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ نے بجا طور پر پوچھا ہے کہ اگر آج میرا حال خراب ہے تو پھر میرا حال کب اچھا تھا! یہ بین السطور فلسفے کی باتیں ہیں۔ ایسی باتوں سے دور رہنے میں بندے کے لئے عافیت ہوتی ہے۔ آپ چین کی نیند سو سکتے ہیں۔ چین کی نیند سے جاگنے کے بعد آپ چین کی بانسری بجا سکتے ہیں۔
قصّہ مختصر، آج کی کتھا میں آپ کو بہت برے حال میں سنا رہا ہوں۔ آپ مجھے دور سے دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے،آپ کو لگے گا میں مولانا طاہر القادری کا معتمد ہوگیا ہوں اور سر پر سفید ٹوپی پہن لی ہے۔ ذرا قریب آنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ میں نے سر پر پگڑی باندھ رکھی ہے۔ دراصل میرے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، سر پر ڈنڈے برسنے کے بعد میں لہولہان ہوگیا تھا، میں چکرا کر گر پڑا تھا جب ہوش آیا تو میں نے خود کو اسپتال کے بیڈ پر لیٹا ہوا پایا۔ مجھے تعجب ہوا میں نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر میں اُٹھ نہ سکا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ میں زخمی تھا۔ میرے سر اور ٹانگوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے ادھر اُدھر گردن گھما کر دیکھا، وہ اسپتال کا جنرل وارڈ تھا۔ کئی بیڈز پر ایسے مریض پڑے ہوئے تھے جو زخمی تھے اور ان کے مختلف اعضاء پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ میں کسی جلسے جلوس میں شامل تھا اور پولیس کے لاٹھی چارج یا بم دھماکے میں زخمی ہوا تھا یا پھر یہ کہ میں کھچا کھچ بھری ہوئی بس میں سفر کررہا تھا اور بس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ مجھے کچھ یاد نہیں آرہا تھا کہ میں زخمی کیسے ہوا تھا! تب میں نے قریب کے بیڈ پر لیٹے ہوئے نوجوان مریض سے پوچھا ”بیٹے، تم کسی جلسے جلوس میں شامل تھے کہ زخمی ہوگئے ہو؟“نوجوان نے کرّاہتے ہوئے جواب دیا ”نہیں بابا جی، میں کسی جلسے جلوس میں شامل نہیں تھا“۔”تو پھر کیا تم راستوں میں موٹر سائیکل کے کرتب دکھاتے ہوئے زخمی ہوئے ہو؟“میں نے پوچھا۔ نہیں بابا جی۔نوجوان نے بیزاری سے جواب دیا ”تو پھر تم زخمی کیسے ہوئے؟“میں نے پوچھا”جیسے آپ زخمی ہوئے ہیں بابا جی“۔ نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے کہا ”میں اپنے دوست کی بہن کو ویلنٹائن ڈے پر گلاب اور چاکلیٹ دینے گیا تھا۔ دوست نے میرا یہ حال کر دیا“۔ آپ کس کو پھول اور چاکلیٹ دینے گئے تھے بابا جی؟ میں نے جھنجھلا کر کہا ”برخوردار بزرگوں سے اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے“۔ نوجوان کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ اس نے جنرل وارڈ کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”دیکھئے بابا جی دروازے پر لگے ہوئے بورڈ پر کیا لکھا ہوا ہے“۔ دروازے پر بورڈ لگا ہوا تھا اور بورڈ پر لکھا ہوا تھا ”عاشقوں کا وارڈ“۔
میں چونک پڑا۔ تب مجھے نوجوان زخمی کی زبانی معلوم ہوا کہ وارڈ میں داخل سبھی زخمی ویلنٹائن ڈے پر زخمی ہوئے تھے۔ ایک زخمی گونگے پہلوان کی بیٹی کو گلاب کا پھول اور چاکلیٹ دینے گیا تھا اور گونگے پہلوان کے ہاتھوں زخمی ہو کر جنرل وارڈ میں داخل ہوا تھا۔ ایک زخمی اپنے پڑوسی کی بیوی کو گلاب اور چاکلیٹ دیتے ہوئے اس سے اظہار محبت کر بیٹھا تھا، پڑوسن نے اسے بیلن سے مار مار کر ادہ موا کردیا تھا۔ ایک شخص نے ایئرپورٹ کے ڈپارچر لاؤنج میں بیٹھی ہوئی عورت کو گلاب کا پھول اور چاکلیٹ دیتے ہوئے کہا تھا ”ہیپی ویلنٹائن ڈے آئی لو یو“
عورت نے سینڈل کی نوکدار ہیل اس شخص کے سر پر مار مار کر اس کے سر میں چھید کردیئے تھے۔ وہ شخص بھی جنرل وارڈ میں داخل تھا۔ تب مجھے یاد آیا کہ میں بھی ویلنٹائن ڈے پر زخمی ہواتھا۔ میں ایک بیکار قسم کا فارغ البال آدمی ہوں۔ دن رات پاکستانی ٹیلی ویژن چینل دیکھتا رہتا ہوں۔ ویلنٹائن ڈے پر تمام پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز نے خاص پروگرام دس روز پہلے شروع کردیئے تھے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور زیادہ سے زیادہ اشتہارات بٹورنے کے لئے بڑے ہی رنگین اور دلفریب ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے پروگرام دکھانے لگے تھے۔ میں ایک تنہا بڈھا کہاں تک پبلسٹی کی مار برداشت کرتا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس سال میں بھی ویلنٹائن ڈے مناؤں گا اور کسی نہ کسی کو گلاب کا پھول اور چاکلیٹ دے آؤں گا۔
بہت سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کی میں کامنی کو گلاب کا پھول اور چاکلیٹ دے آؤں گا بشرطیکہ وہ ذیابیطس کی مریضہ نہ ہو چکی ہو۔ ایسی صورتحال میں کامنی کو میں ڈائیٹ چاکلیٹ کا ڈبہ دوں گا اور پھر یوں بھی ہوسکتا تھا کہ کامنی میری طرح ڈھیٹ نہ ہو اور وہ یہ دنیا چھوڑ کر جاچکی ہو! میں نے سوچا ایسے میں قبرستان جا کر اس کی قبر پر گلاب کا پھول اور ڈائیٹ چاکلیٹ کا ڈبہ رکھ آؤں گا۔ کامنی آج سے پچپن برس پہلے کراچی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ اس کا ڈپارٹمنٹ کوئی اور تھا اور میرا ڈپارٹمنٹ کوئی اورر تھا۔ وہ پیار تھی کسی اور کا، اسے چاہتے کئی اور تھے۔ ان میں ایک میں بھی تھا۔ ریسرچ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ کامنی حال حیات تھی اور چودہ فروری کے دن وہ اپنی پچھترویں سالگرہ منا رہی تھی۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ کامنی ذیابیطس کی مریضہ تھی اس لئے ڈائیٹ چاکلیٹ اور گلاب کا پھول لے کر میں اس کے گھر پہنچا۔ تحائف پر ہیپی برتھ ڈے اور ہیپی ویلنٹائن ڈے کا کارڈ لگا کر میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک لحیم شحیم نوجوان باہر آیا۔ اسے چاکلیٹ اور گلاب کا پھول دیتے ہوئے میں نے کہا ”یہ کامنی کے لئے ہیں، ہم کراچی یونیورسٹی میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ یہ پچپن برس پہلے کی بات ہے۔ تب ہم قمرالنساء کو کامنی کہتے تھے“۔
”رفیق، شفیق، توفیق“ نوجوان نے پلٹ کر آواز دی ”باہر آؤ بھائی۔ ایک بڈھا کھوسٹ مما کو پھول اور چاکلیٹ دینے آیا ہے“۔
چاروں بھائیوں نے مل کر میری خوب دھنائی کی۔ آج کل اسپتال میں داخل ہوں اور یہ قصّہ عاشقوں کے وارڈ سے آپ کو سنا رہا ہوں۔
تازہ ترین