• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست کو دنیا بھر میں ایک خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور لوگ یہ کہہ کر بہت فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم عام لوگوں کے لئے اپنا اور اپنی فیملی کا وقت اور پیسہ خرچ کرنے آئے ہیں اور اس قومی خدمت پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں سیاست ایک گالی بن گئی ہے اور بے شرمی اور ڈھٹائی کے وہ نئے ریکارڈ بنائے جارہے ہیں کہ شاہ مدار بھی شرم کے مارے ڈوب مرے۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول مٹی اس طرح جھونکی جارہی ہے کہ انہیں واقعی یقین آجائے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ پی پی پی نے تو حد ہی کردی ہے اور اصول، قاعدے قانون، ضابطے سب کھڑکی کے باہر پھینک دیئے ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا جاتا ہے کہ کیا ہوا اگر ہم نے کرپشن اور چوری، لوٹ مار کی ہے یہ تو ہمارا حق ہے کیونکہ ہمارے لیڈر چوری کے الزام میں 10سال جیل کاٹ چکے ہیں اور کیونکہ ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا اس لئے اب ہمیں کون روک سکتا ہے۔ کروڑوں کی لوٹ مار کرنے والے لیڈر اور ان کے چمچے بیوقوف اور گدھے سمجھے جاتے ہیں بات اربوں میں ہو تو وہ کچھ غور طلب ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کی گردن اس طرح مروڑی جارہی ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے شعبدہ باز بھی داد دے رہے ہیں۔ صدر محترم نے اپنا ملک میں آنا اور جانا ایک ایسا مشغلہ بنا لیا ہے کہ منہ اٹھایا اور چل پڑے خبر جب منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو ٹی وی پر نشر ہوتی ہے تاکہ کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ جو ذرا سا اپنے آپ کو مشکل میں پھنسا ہوا پاتا ہے وہ راتوں رات فرار ہوجاتا ہے اور پہلا اسٹاپ دبئی ہوتا ہے۔ اگر حالات ٹھیک ہوگئے تو واپسی ہوجاتی ہے ورنہ پاکستانی قانون انہیں ڈھونڈتا رہے، سر پٹختا رہے۔ کیا مذاق ہے کہ سندھ میں راتوں رات حکومت حلیف متحدہ اپوزیشن میں بدل گئی، لوکل حکومت کا قانون واپس ہوگیا، منٹوں میں حزب اختلاف کا قائد بھی بن گیا، گورنر لندن کا کہہ کر دبئی میں بیٹھ گئے، صدر راتوں رات دبئی پہنچ گئے۔ عبوری گورنر اور اسپیکر صاحب نے سارے ملی بھگت والے آرڈر دستخط کردیئے اور جب یہ ساری کارروائی مکمل ہوگئی تو اسپیکر صاحب فرماتے ہیں متحدہ کے وزیروں کے استعفے تو ابھی منظور ہی نہیں ہوئے یعنی سندھ میں اب وزیر اور مشیر حزب اختلاف میں بیٹھے ہیں گورنر واپس آکر اپنی کرسی سنبھالیں گے اور پھر یہ حکومت اور حزب اختلاف مل کر عبوری حکومت بنائیں گے۔ لوگوں کو دکھانے کے لئے احتجاج اور گالی گلوچ کا سلسلہ جاری رہے گا یعنی سیاست ایک بچوں کا کھیل ہوا اور چھپن چھپائی کا گیم یوں چلے کا جیسے لتا کا وہ گیت ”ڈھونڈو ڈھونڈو رے ساجنا مورے کان کا بالا“۔ اس سے زیادہ بیہودہ کھیل بلوچستان میں ہوگا یعنی صرف کاغذی کارروائی آئین اور عدالتوں کا پیٹ بھرنے کے لئے۔ ڈھنڈورا پیٹا جائے گا مفاہمت کا۔ مگر یہ سب کرنے کے باوجود ڈر اور خوف کا یہ عالم ہے کہ آخری دنوں میں ہر وہ کام جلدی جلدی میں کیا جارہا ہے جس کی5سال فکر ہی نہیں تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں بھرتیاں، سیکڑوں افسروں کے تبادلے اور ترقیاں اربوں کے منصوبوں کی منظوریاں کیا اسپیڈ ہے اور پھرتیاں ہیں کہ بھاگتے چوروں سے لنگوٹیاں نہیں سنبھل رہیں۔ ایک کی سیٹ بک ہے بچے اور مال تو نجی جہازوں اور سوٹ کیسوں میں پہلے ہی جاچکا اور پھر جس دن گھنٹا بجے گا ایک شام غریباں ہوں گی۔ کوشش کی جائے گی کہ نئے آنے والے دوست ہوں اور دوستی کا حق ادا کریں۔ کوئی کسی طرح کے احتساب کی بات نہ کرے۔ لوٹ مار کو بھول کر دوبارہ انہی لوگوں کو اقتدار میں لانے کا بندوبست جاری رہے اور کچھ نئے اور کچھ پرانے لوگوں کو کرسیاں بدل بدل کر پھر سے لوٹ مار کا بازار گرم کرنے دیا جائے۔ یہی مطلب ہے پاکستان کی جمہوریت کا اور یہی ہے اس کا انتقام۔ مگر ایسی کرسیوں کے کھیل سے کیا وہ پہاڑ جیسے مسئلے کچھ ذرا دیر کیلئے بھی حل ہو سکیں گے۔ ان جمہوروں نے ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے اگر اسی عطار کے لونڈے سے وہی دوا قوم نے لے لی تو کیا افاقہ ہو گا، تو پھر کیا کیا جائے۔شنید ہے کہ اونچے اونچے محلوں میں یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ پچھلے 5سال کی کارکردگی کی بنیاد پر انتخاب نہیں ہونا چاہئے۔ کیوں نہ دو تین سال کچھ اپنی پسند کے اور کچھ ان کے ہم خیال ٹیکنو کریٹس کو بٹھا دیا جائے تاکہ ہم اپنی لوٹی ہوئی دولت کو ذرا انجوائے کر لیں اور مشکل فیصلے اور عوام کا غیض و غضب ان عبوری جمہوروں کو سہنے دیا جائے اور پھر جب انتخابات ہوں تو ہم ان کی3-2سال کی کارکردگی پر عوام سے ووٹ مانگیں۔ مشکل یہ ہے کہ عدالتیں اور وردی والے تیار نہیں۔ ان کو قائل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ حالات اتنے بگاڑ دیئے جائیں کہ لوگ دن رات کی دہائی دیتے ہوئے گڑگڑا کر التجائیں کریں کہ کوئی آئے اور انہیں بموں سے، بھوک سے، بے روزگاری سے، مہنگائی سے ان سارے عذابوں سے بچائے ۔کچھ لوگ اور کچھ اخبار جن کا تعلق اونچے اونچے محلوں سے ہے وہ ابھی سے دہائی دینے کی مشق کر رہے ہیں ”جنرل کہاں ہو“ کے نعرے لگ رہے ہیں مگر جنرل نے تو اعلان کروا دیا کہ ہم کوکوئی دلچسپی نہیں۔ جو کرے سو بھرے۔ اب بھرنے والے تو راتوں رات بھاگ کھڑے ہوں گے اور یہ تو ممکن ہی نہیں ہو گا کہ جس نے خانہ خراب کیا وہ پکڑا جائے۔ سیاست نے ریاست کی مت ماری دی اور کسی کو نہیں سوجھ رہا کہ آگے کس راستے اور کس بند گلی سے نکلا جائے۔یہ سب تو عام فہم اور سب کی سمجھ میں آ جانے والی باتیں ہیں۔ جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے وہ کہیں نہ کہیں تو موجود ہے۔ وہ لسٹیں بن چکی جن کو بھاگنے نہیں دیا جانا چاہئے اور اگر فرار کو نہیں روکا جا سکا تو پھر ان کی واپسی کا بندوست ابھی سے ہونا ضروری ہے۔ توقیر صادق کا کیس ایک ضروری ڈریس ریہرسل ہے۔ شوکت عزیز اور جنرل مشرف کی واپسی کے بلاوے بھی نیٹ پریکٹس سمجھ لیں اس طرح کہ ان بڑے اور چھوٹے چوروں کو پکڑنے کا کام جاری ہے اور ساتھ ہی انتخاب بھی اگر ہو سکے تو ہو جائے ورنہ پھر بحالت مجبوری3-2سال کیلئے کچھ ٹیکنو کریٹس کو ہی بٹھا دیا جائے۔ حفیظ شیخ تو ہیں ہی ایک مثال اور ان کی آنکھوں میں چمک تو میں خود شیری رحمن کے گھر چند مہینے پہلے دیکھ چکا ہوں۔ رہی بیچاری شیری تو کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہا اس کو اچانک ایک 3سال پرانے بیان دینے کے الزام میں کیوں پھنسا دیا گیا ہے جبکہ وہ بیان کوئی خاص اہم بھی نہیں تھا۔کہا جا رہا ہے کہ شیری کا نام بھی کسی عبوری حکومت کے ضمن میں آیا تھا تو نزلہ جلدی گر گیا۔ سفیر بننے کے بعد تو دو سال وہ الیکشن بھی نہیں لڑ سکتیں اور اصولاً تو سفارت بھی چلی جائے گی مارچ میں۔یونان کی پرانی تاریخ اور Myths میں بادشاہ میڈاس(Midas)کا بہت ذکر ہے کیونکہ وہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا تھا وہ سونے کی بن جاتی تھی۔ "The Midas Touch"میں لکھا یہ ہے کہ اس نے اپنی بیٹی کو ہاتھ لگایا تو وہ سونے کی ہو گئی۔خود وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا تھا کیونکہ ہر نوالہ سونے میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ آخر ہوا وہی جس کا ڈر تھا بے چارہ سونے کا شہنشاہ بھوک سے مر گیا۔ ہمارے ملک کے شہنشاہوں کو میڈاس کی کہانی ضرور پڑھنی چاہئے۔
تازہ ترین