• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جنوبی ایشیا میں انگریزی دورِ غلامی پر خواہ کتنی ہی سخت تنقید کیوں نہ کریں ایک بات واضح ہے کہ اسی ’’سامراج‘‘ نے نہ صرف ماڈرن انڈیا کو ایک نوع کا وسیع تر استحکام بخشا بلکہ ایک واضح وحدت و یکتائی بھی عطا کی۔ علاوہ ازیں اس خطہ ارضی میں شعوری سطح بلند کرنے کے لیے تعلیمی حوالوں سے وہ اقدامات اٹھائے جو ہماری موجودہ جدید تعلیم کی بنیاد بنے۔ انفراسٹرکچر کو ترقی دی، ہمارا موجودہ نہری نظام اور دریاؤں پر بنائے گئے بیراج سب انگریزوں کے دورِ غلامی کی یادگار ہیں۔ ہمارا تمام تر جدید عدالتی نظام اور انتظامی محکموں کا وسیع تر قیام یا بنیادی جمہوری اداروں کی اٹھان ملاحظہ کی جائے یا پورے جنوبی ایشیا میں پھیلے ہوئے محکمہ ریلوے کی عوامی سہولتوں کا ان حوالوں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

جس زمانے میںترکی کی عثمانی حکومت میں اسپتال کے قیام کو بدعت قرار دینے کے فتاویٰ جاری ہو رہے تھے اور ہمارا اتنا بڑا قومی و ملی دانشور حجاز مقدس میں شفاخانہ قائم ہونے پر یہ لکھ رہا تھا کہ حضور ہمیں حجاز میں شفا نہیں موت درکار ہے تب انگریز یہاں جنوبی ایشیا میں عظیم الشان اسپتال اور میڈیکل کالجز تعمیر کرنے پر بضد تھے۔ سلطنتِ مغلیہ میں جو سہولتیں شاید شاہی خاندان یا امراء کے لیے مخصوص تھیں انگریز سرکار نے ان کا رخ عام عوام کی طرف موڑ دیا۔ کیا مغل دور میں کوئی عام آدمی یہ سوچ سکتا تھا کہ جدید بیت الخلا یا ٹائلٹ سسٹم کیا ہوتا ہے؟ یہ شعور پہلی مرتبہ ولایتی حکومت کے ذریعے یہاں آیا۔ کبھی ہمارے روایتی لوگ لوگوں کو یہ بتایا کرتے تھے کہ گھروں میں بیت الخلا کا قیام ممنوع اور سخت گناہ ہے، شیاطین اور جنات اُس گھر میں داخل ہو جاتے اور برکتیں اُس گھر سے اٹھ جاتی ہیں جس گھر کے اندر بیت الخلا قائم کیا جائے گا جسے شک ہے اُسے درویش اس تمام تر بحث کے ثبوت اور حوالے مہیا کرنے کو تیار ہے۔

ہماری ذہنی کینوس پر ان تمام باتوں کے شانِ نزول کا باعث 19نومبر کا دن بنا جسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’ورلڈ ٹائلٹ ڈے‘‘ کے طور پر منایا گیا۔ ہمارے میڈیا میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسف کی جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس کے مطابق آج بھی ہمارے دو کروڑ پاکستانیوں کے پاس ٹائلٹ کی سہولت نہیں ہے۔ یہ بہت ہی افسوس ناک صورتحال ہے۔ اس کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا حکومت نے بیت الخلا کی تلاش میں جو ایپ جاری کی ہے اس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے بتایا ہے کہ پاکستان میں اس وقت بھی 79ملین سے زائد لوگ ٹائلٹ کی سہولت سے دور ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹائلٹ کی عدم موجودگی کے باعث سب سے زیادہ خواتین اور بچے مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ رفع حاجت کے لیے انہیں رات کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بیمار اور عمر رسیدہ افراد بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی اَنا کو وہاں دھچکا لگتا ہے جہاں رفع حاجت کی مناسب جگہ نہ ہو۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق خراب صحت و صفائی کی وجہ سے پاکستان میں 3.94فیصد جی ڈی پی کی کمی ہوتی ہے جس سے سالانہ 5.7ارب ڈالر یعنی 8.8کھرب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کو 2030تک یومیہ 820لٹرینیں بنانا درکار ہیں جبکہ بھارت میں ’’کلین انڈیا مہم‘‘ کے تحت گھر میں ٹائلٹ کی رسائی کو کہیں بہتر طور پر بڑھایا گیا ہے۔ گھروں میں جدید بیت الخلا کی فراہمی پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کا دیرنیہ مسئلہ ہے اور یہ ایک ایسی بنیادی انسانی ضرورت ہے جس پر میڈیا کو آگہی بغیر کسی شرم و جھجک کے عام عوام تک پہچانی چاہئے۔ ہر دو حکومتوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ عالمی اداروں کی معاونت سے اپنے کروڑوں عوام بالخصوص دیہی آبادی کا یہ اتنا شدید ضروری و بنیادی مسئلہ حل کرنے کیلئے جو کچھ ممکن ہے وہ کریں۔

درویش کا بچپن ایک گاؤں میں گزرا، اس لیے دیہی زندگی کی مشکلات اُس کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئی ہیں۔اپنے گاؤں کی جو ابتر صورتحال اپنی نوعمری میں ملاحظہ کی ان میں سے ایک بیت الخلا کا مسئلہ تھا۔ آج ہماری نسلِ نو ذرا اس تکلیف کا تصور کرے بالخصوص نصف آبادی خواتین کی حالت ِ زار کا، جہاں یوں تو سب لوگوں کو رفع حاجت کے لیے گاؤں سے دور کھیتوں میں جانا پڑتا لیکن عام خواتین کو دن چڑھے باہر جانا مشکل ہو جاتا۔ باقی مہینوں میں تو چلیں پھر بھی جیسے تیسے گزارا ہو جاتا مگر برساتی موسم میں جب ہر جگہ پانی کھڑے ہوتا اور دھان کے کھیت پانی سے بھرے ہوتے گلیوں میں گزرنا دوبھر ہو جاتا۔ ذرا تصور کیا جائے کہ ایسے حالات میں بچوں بوڑھوں اور بالخصوص خواتین پر کیا گزرتی ہو گی۔اگرچہ شعوری و معاشی بہتری کے ساتھ اب حالات بڑی حد تک بہتر ہو چکے ہیں مگر اب بھی بالخصوص دیہی آبادی کے کئی حصوں میں یہ مسئلہ موجود ہے۔

تازہ ترین