• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یا میں پاگل ہوں یا پھر پالیسی سازوں اور ان کے ترجمانوں کی منطق میں پنہاں حکمتوں کو سمجھ نہیں پارہا ۔ پانچ چھ سال سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں لیکن انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے اپنے پالیسی سازوں کی منطق کو سمجھ سکا اور نہ اپنی بات ان کو سمجھا سکا ۔ شاید غلطی میری ہے، شاید میری سوچ غلط ہے یا شاید اردو اور انگریزی زبانوں پر پورا عبور نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنی بات سمجھا نہیں پارہا لیکن میں جس موقف کو اپنی معلومات اور فہم کے مطابق درست سمجھ رہا ہوں‘ اس کو تب تک بیان کرتا رہوں گا جب تک دلیل اور منطق کے ساتھ کوئی مجھے کسی دوسرے موقف کا قائل نہ کردے۔ افغانستان اور پاکستان میں وار آن ٹیرر سے متعلق معاملات جس طرح آگے بڑھ رہی ہیں‘ اس کے نتیجے میں پالیسی سازوں کو مسئلہ حل ہوتا نظر آرہا ہے لیکن مجھے صورتحال مزید بگڑتی نظر آرہی ہے جس کے نتیجے میں مستقبل کو ایک نئی اور ہمہ جہت تباہی میں لپٹا دیکھ رہا ہوں۔ وہ اور ان کے ترجمان مطمئن ہیں کہ فاٹا اور خیرپختونخوا میں امن آرہا ہے لیکن میں لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کو بھی وزیرستان بنتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ خوش ہیں کہ 2014ء میں نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن مجھے اس کے بعد افغانستان میں بدترین خانہ جنگی اور پاکستان پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ مواقع یکسر ختم اور راستے سب مسدود ہر گز نہیں ہوئے۔ اب ایک اور بہت بڑا ‘ شاندار لیکن شاید آخری موقع ہاتھ آیا ہے لیکن مجھے اپنے حاکم اس سے فائدہ اٹھاتے نظرنہیں آرہے ہیں ۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران ان موضوعات سے متعلق کم وبیش تمام سیاسی‘سفارتی اور عسکری حلقوں سے ملاقاتیں کیں۔
طالبان اور طالبان سے تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں کو بھی سنا۔ اس کے تناظر میں نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مجھے پاکستان کے اصل اور جعلی حاکموں کے ہاں کوئی جامع اسٹریٹجی اور حکمت عملی نظر نہیں آئی۔ افغانستان کے بارے میں ہر کوئی فارمولے پیش کرتا نظر آرہا ہے لیکن پاکستان سے متعلق کسی کے پاس کوئی فارمولا نہیں۔ افغانستان میں طالبان کی کامیابی اور افغان حکومت کی ناکامی پر ہر کوئی خوش جبکہ پاکستان میں طالبان کی کارروائیوں سے سب پریشان ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ صرف پریشان ہیں،کچھ کرنے کے موڈ میں کوئی نہیں نظر نہیں آتا۔ ہر کوئی افغانستان میں طالبان کے ساتھ مفاہمت پر زور دے رہا ہے لیکن پاکستان میں طالبان کے ساتھ مفاہمت کی تجویز سے سب برہم ہوجاتے ہیں ۔ جو سیاسی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کی حامی بن گئی ہیں ان کے پاس بھی کوئی لائحہ عمل یا روڈ میپ نہیں۔ دینی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے قائدین ہیں یا لبرل سیاسی جماعتوں کے رہنما‘ درون خانہ سب طالبان کے بارے میں وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو رحمن ملک استعمال کررہے ہیں لیکن باہر آکر ان کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ وہ خوف یا سیاسی مصلحتوں کی خاطر مذاکرات کی بات کررہے ہیں لیکن یہ آواز ان کے دلوں سے اٹھ رہی ہے اور نہ ان کے پاس مفاہمت کے لئے کوئی منصوبہ عمل ہے ۔ ریاست کو چیلنج کرنے والے عناصر یکسو ہیں‘ منظم بھی ہیں‘ متحرک بھی ہیں‘ پُرعزم بھی نظر آرہے ہیں ‘ ان کے ہاں کوآرڈینیشن بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور اپنا دائرہ اثر بھی روز بروز بڑھارہے ہیں لیکن اس کے برعکس ریاست تماشائی بنتی جارہی ہے۔ یہی کنفیوژن اور انتشار فکروعمل بلوچستان کے حوالے سے بھی نظرآرہا ہے اور کراچی سے متعلق بھی۔ ذرا سوچئے جب ایک طرف قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں خانہ جنگی ہوگی‘ دوسری طرف بلوچستان جل رہا ہوگا اور تیسری طرف بارود کا ڈھیر بننے والا کراچی پھٹ پڑے گا تو بادشاہوں کا شہر لاہور کب تک بچا رہے گا۔
پالیسی سازوں کی اپروچ یہ ہے کہ 2014ء تک اسٹیٹس کو کو برقرار رکھ کرمعاملے کو طول دیا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب نیٹو فورسز نکل جائیں گی اور طالبان افغانستان کے نظام میں جگہ بنالیں گے تو پھر طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے پاکستانی عسکریت پسندوں کو زیرکردیا جائے گا لیکن میری دانست کے مطابق پہلے تو افغان طالبان کا اسی طرح افغان نظام میں سمونا ناممکن ہے جس طرح سمونے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اگر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے تو بھی پاکستان کے اندر عسکریت پسندی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان میں جو بھی نقشہ بنے گالیکن 2014ء کے بعد پاکستانی عسکریت پسندوں کو کنٹرول کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ تب نہ طاقت کے استعمال سے ان کو زیرکیاجاسکے گا اور نہ مذاکرات سے ان کو قابو لایا جاسکے گا۔ کچھ بھی کرنے کے لئے پاکستان کے پاس صرف یہ ایک سال ہے اور چونکہ طاقت کے استعمال یا پھر اس کے ذریعے حل ہونے کا کوئی امکان نہیں‘ اس لئے میں پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر زور دے رہا ہوں۔ میرے نزدیک پاکستانی عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کا یہ آخری موقع ہے ۔2014ء تک افغان طالبان پاکستان کے محتاج ہیں اور ان سے کام لے کر پاکستانی طالبان کو قابل عمل حل پر آمادہ کیا جاسکتا ہے لیکن 2014ء کے بعد جب افغان طالبان ہمارے محتاج نہیں ہوں گے بلکہ ہو سکتا ہے ان میں سے بعض ہماری ریاست سے ان مظالم کا بدلہ لینا چاہیں گے جو پاکستان نے امریکہ کی خاطر ان کے ساتھ روا رکھے۔
تشویشناک پہلو یہ ہے کہ مذکورہ حوالوں سے پاکستان میں سول اور ملٹری قیادت کے درمیان کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آتی ۔ فوجی حکام سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ طاقت کا استعمال ہو یا مذاکرات کی بات ہو‘ فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے لیکن سیاسی قیادت سے بات کریں تو وہ کہتی ہے کہ یہ معاملہ فوج کے ہاتھ میں ہے اور چونکہ سول قیادت کو کوئی کردار ہی نہیں دیا جارہا اس لئے وہ اس پر مغزکھپائی کرکے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ فوجی حکام کہتے ہیں کہ کسی علاقے کو کلیئر کرنے کے بعد وہ ایک خاص وقت تک اسے کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں اور اگر سیاسی قیادت اپنی ذمہ داری نبھاکر بروقت بحالی کے ذریعے معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتی تو اس کی قربانیاں ضائع ہوجاتی ہیں جبکہ سیاسی قیادت بے اختیاری کا رونا روکر اپنے آپ کو بری الذمہ کررہی ہے۔ فوج کو شکوہ ہے کہ سیاسی قیادت یکسو نہیں ہورہی ہے اور سیاسی قیادت کو گلہ ہے کہ فوج کی پالیسیوں سے بننے والے گرے ایریاز (Gray Areas)اور ہر سو پھیلے ہوئے کنفیوژن کی وجہ سے وہ یکسو نہیں ہوسکتی۔ فوج کو شکایت ہے کہ سیاسی قیادت اس کو اون(Own) نہیں کررہی جبکہ سیاسی جماعتوں بالخصوص اے این پی کو شکایت ہے کہ اسے طالبان سے پٹوا کر اسٹیبلشمنٹ مطلوبہ سنجیدگی نہیں دکھارہی ۔فوج کہہ رہی ہے اور شاید درست کہہ رہی ہے کہ معاشی ‘ قانونی ‘ سیاسی اور سفارتی سطح پر مطلوبہ ماحول نہ بنایا جائے تو صرف فوج کے ذریعے طاقت کے استعمال سے مطلوبہ نتائج نہیں نکل سکتے بلکہ بسا اوقات الٹ نتائج نکلتے ہیں جبکہ سیاسی قیادت الزام لگارہی ہے کہ فوج کے نیشنل سیکورٹی کے تصورات اور اس کے نتائج کی وجہ سے معیشت، قانون ،سیاست اور سفارت بھی اس کے قابو میں نہیں آرہے ہیں۔ تحریک طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے معاملے کو دیکھ لیجئے ۔ سیاسی قیادت کہہ رہی ہے کہ وہ فوج کی گارنٹی نہیں لے سکتی جبکہ عسکری قیادت خاموش ہے اور کہہ رہی ہے کہ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے ۔یوں وہ موقع ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے ۔ اب تو یہ خلیج اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جب شیعہ سنی تنازع کو بڑھاوا دینے والے ایک اسلامی ملک کی طرف متوجہ کیا جائے تو عسکری حلقے رونا روتے ہیں کہ اس ملک کو سیاسی قیادت نے فری ہینڈ دیا ہوا ہے اور جب دوسرے ملک کی شکایت کی جائے تو سیاسی قیادت الزام لگاتی ہے کہ فوج اس ملک پر مہربان ہے ۔ غرض ایک کی سنیں تو وہ مسیحا اور دوسرا سراپا شر نظر آتا ہے اور دوسرے کے خیالات سے مستفید ہوں تو لگتا ہے کہ وہ معصوم ہے اور سب قصور دوسری طرف ہے ۔ اس صورتحال کی وجہ سے ریاست بالکل مفلوج نظرآرہی ہے۔ بہت ہوگیا یہ ملک مزید اس کمیونی کیشن گیپ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب مزید تاخیر تباہی ہوگی، پہلی فرصت میں سول ملٹری مکالمے کا اہتمام ہونا چاہئے ۔ یہ مکالمہ خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ ہونا چاہئے تاکہ اتفاق رائے سے مسئلے کی تشخیص بھی ہوجائے اور حل کے لئے کوئی مشترکہ حکمت عملی بھی بنائی جاسکے۔ یہ مکالمہ فوری اور قوم کے سامنے ہونا چاہئے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اس کی فوج کیا سوچ رہی ہے اور سیاسی قیادت کتنے پانی میں ہے۔ اب یہ فیصلہ ہوجانا چاہئے کہ سیاسی قیادت واقعی نااہل ہے یا فوج اس کی بات نہیں مان رہی۔
تازہ ترین