• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے سامنے انہوں نے اس خاتون کی کار پر گولیاں ماریں“ دہشت سے بھری آواز میں گھر واپس آکر تابندہ نے بتایا۔ وہ اپنے گھر سے تھوڑی دور ایک اسکول میں پڑھاتی ہے اور عام طور پر پیدل ہی جاتی ہے۔ لوگ آجارہے ہوتے ہیں۔ تاثر یہ تھا کہ اس راستے پر خطرہ نہیں ہوگا۔ اسی راستے پر اس دن اسکول جاتے ہوئے وہ واقعہ ہوا۔ ” میں نے پہلی بار ڈکیتی ہوتے ہوئے دیکھی“۔ دو لڑکوں نے ایک گاڑی روکنے کی کوشش کی ، پستول نکال لی اور دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی ایک خاتون چلارہی تھیں۔ بہادر تھیں یا نا سمجھ۔ انہوں نے کھڑکی نہیں کھولی۔ لڑکوں نے پھر اشارہ کیا۔ خاتون نے جرأت کا مظاہرہ کیا یا ناسمجھی کا ،اور گاڑی چلادی۔ لڑکوں نے گولیاں چلائیں جو کار پر لگیں۔کئی دن بعد بھی جب تابندہ اپنے ایک عزیز کو یہ روداد سنارہی تھی، اس کی آواز میں کپکپاہٹ محسوس ہورہی تھی۔ عزیز نے قصّہ سنا، افسوس کا اظہار کیا۔ کہنے لگے ”تین چار دن پہلے میرے ایک دوست کے ساتھ…‘
اسکول ٹیچر شاید ان تھوڑے سے لوگوں میں ہو جو کسی واردات کے عینی شاہد ہوں، پتہ ورنہ سب کو ہے۔ جہاں کسی محفل میں، ملاقات میں ایسا کوئی واقعہ بیان ہو وہاں موجود ہر شخص، تقریباً ہر شخص کے علم میں ایک یا کئی واقعات ہوں گے۔ میرے رشتہ دار سڑک پر جارہے تھے کہ اچانک دو لوگوں نے انہیں روکا، فون اور پرس چھینا اور فرار ہوگئے، میرے بھائی کے ساتھ… میری بیوی کی چوڑیاں… میرے دفتر کی ایک ساتھی کو ایک شادی سے گھر واپس آتے ہوئے لوٹ لیا گیا۔ابو ، ہم جامع کلاتھ مارکیٹ پر گاڑی سے اترے ہی تھے کے دو لڑکے ہمارا پرس چھین کر لے گئے ۔ کسی بھی مجلس میں ، ہوٹل میں چائے کی میز پر، ڈرائنگ روم میں ، جہاں یہ گفتگو شروع ہوجائے، ختم نہیں ہوتی۔ اپنا یا اپنے جاننے والوں کا غم ، کوئی نہ کوئی بیان کرتا ہے۔ دس بارہ سو لوگوں کی بنیاد پر اگر ملک کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے تو ایسی کسی بھی مجلس میں لوگوں کی باتیں سن کر یہ اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کم از کم ایک سو پچاس فیصد لوگ اس صورتحال سے متاثر ہوئے ہیں، وہ خود لٹے ہیں یا ان کسی عزیز، رشتہ دار، دوست احباب کے ساتھ واردات ہوئی ہے۔ بچا شاید ہی کوئی ہو۔ کوئی جگہ، کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں واردات نہ ہوتی ہو۔
مگر یہ تو لوگوں کی باتیں ہیں۔ پولیس کے ریکارڈ میں بھی کیا ایسا ہے؟ ایسا؟ اس کے قریب قریب بھی نہیں ۔ پولیس کا ریکارڈ صرف وہ ہوتا ہے جس کی ایف آئی آر درج ہو، درج نہ ہوئی ہو تو واردات ریکارڈ پر آئے گی ہی نہیں، یعنی واردات ہوئی ہی نہیں۔ ہوتا کیا ہے؟ یہ کوئی انکشاف نہیں ہے ،یوں ہی ہوتا ہے۔ ایک خاصی بڑی رقم، اپنے قیمتی زیورات، امریکی پاسپورٹ اور پرس وغیرہ ایک بھری پری سڑک پر ڈاکووٴں کے حوالے کرنے کے بعد خاتون تھانے پہنچی۔ اسے تھانے کچہری کا کوئی تجربہ نہ تھا، کیوں ہوتا، کسے ہوتا ہے۔ اس نے پولیس کو بتادیا کہ اسے آئندہ چند دن میں امریکہ جانا ہے اور اس کا پاسپورٹ بھی لٹنے والی اشیاء میں شامل تھا۔ تو پھر آپ رپورٹ درج نہ کرائیں۔ اب دیکھئے ناآپ کو بار بار تھانے آنا پڑے گا،شناخت کے لئے، واقعہ کی تفصیل افسران کے سامنے بیان کرنے کے لئے، آپ کے لئے بڑی مشکل ہوگی۔ (ہاں یہ تو ہے)۔آپ کو تو اپنی دستاویزات فوراً چاہئے ہوں گی، گمشدگی کی رپورٹ لکھادیں، آپ کا کام بھی ہو جائے گا اور آپ پریشانی سے بھی بچ جائیں گی۔ اگر آپ اس خاتون کی جگہ ہوتے، آپ کے پاس کوئی اور راستہ تھا؟ نہیں ہوتا۔ ہاں ایک اور صورت بھی ہے۔ یہ کہ روزنامچہ میں درج کئے لیتے ہیں کہ آپ کا موبائل فون ، پرس وغیرہ چھن گیا ہے جس میں شناختی کارڈ اور کریڈٹ کارڈ وغیرہ تھا اور آپ کو اس کی نقل دے دیتے ہیں، آپ کا کام ہو جائے گا ۔ بس یہی ہوتا ہے، پولیس آپ کی کتنی مدد کرتی ہے،آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا !!! اس شہر میں اسٹریٹ کرائم کے اعداد و شمار مل سکتے ہیں؟ جہاں اتنی وارداتیں ہوں ، روز ہی لوگ لٹتے ہوں، ملنے تو چاہئیں مگر ملتے نہیں۔ سندھ پولیس کی ایک ویب سائٹ ہے، کراچی پولیس کی بھی ہے۔ وہاں بہت سی تفصیلات مل جاتی ہیں، پولیس کی تعداد کیا ہے، پولیس کا مشن کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان کاروں اور موٹرسائیکلوں کی چوری ہونے کی تعداد بھی مل جائے گی جن کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ بوجوہ درج کی گئی تھی، انشورنس وغیرہ کے لئے۔ اب یہ کتنی درست ہوتی ہیں، بہت تحقیق ہو تو پتہ چلے۔ جو پتہ ہے وہ سب کو پتہ ہے کہ ساری وارداتوں کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ یہ اعداد و شمار حقائق ظاہر نہیں کرتے۔
امریکہ جانے والی خاتون کی رپورٹ کہاں درج ہے؟ واردات تو ہوئی تھی اور ایسی وارداتوں کی تعداد پولیس ریکارڈ میں درج وارداتوں سے بہت زیادہ ہے۔ پولیس کی ویب سائٹ سے آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ آپ سے چھینا ہوا موبائل فون اور آپ کی چوڑیاں Crime against propertyکی تفصیل میں کہاں بیان ہوا ہے، ویسے ہوا بھی ہو تو آپ کو فائدہ؟ برسبیل تذکرہ، سٹیزن پولیس لائیزاں کمیٹی کے پاس جو اعداد و شمار ہیں ان کے مطابق گزشتہ سال کوئی تیئس ہزار فون چھنے اور چوری ہوئے، صرف کراچی میں ۔
ایک طرف یہ شہر ہے، دوسری طرف پورے ملک میں بائیس ہزار تین سو پچاس چھینے گئے یا چوری ہوئے۔ اس سے پچھلے سال کراچی میں یہ تعداد چھتّیس ہزار تھی۔ تو کیا گزشتہ سال فون کم چھینے گئے، شاید نہیں،درج مگر کم ہوئے۔یہی حال دیگر معاملات میں ہے۔ آئے دن سڑکوں پر ہونے والی ان وارداتوں نے خوف و ہراس کی ایک فضا پیدا کردی ہے سب ہی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ خوف بہت بڑھ گیا ہے۔
کوئی بیس برس پہلے ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران ایک رات دیر سے گھر جاتے ہوئے شدید خوف محسوس ہوا۔ سڑک سنسان تھی، ویسپا کے پیچھے اچانک ایک گاڑی کی ہیڈ لائٹس نظر آئیں۔گاڑی والا آگے نہیں نکل رہا تھا۔ ویسپا روکنے کی ہمت نہیں تھی۔ خوف بڑھتا جا رہا تھا، ایسا خوف اس سے پہلے شاید ہی کبھی محسوس ہوا۔ گاڑی والا بھی شاید خوفزدہ تھا، آگے نہیں نکل رہا تھا۔ یونیورسٹی روڈ پر صرف دو سواریاں تھیں، دونوں ایک دوسرے سے خوفزدہ۔ مگر یہ تو بعد میں پتہ چلاجب گاڑی یونیورسٹی کی طرف چلی گئی اور ویسپا فیڈرل بی ایریا کی طرف مڑگئی۔ مگر اب یہ خوف ہر وقت ساتھ رہتا ہے، اتنا شدید نہیں مگر مستقل، گاڑی میں بیٹھے ہوئے، سڑک پر چلتے ہوئے، دفتر سے باہر نکل کر گاڑی تک جاتے ہوئے۔ بچوں کو بازار بھیجتے ہوئے، ہر لمحہ خوف کا شکار۔ یہ خوف بڑھتا ہی جا رہا ہے، بڑھنا ہی چاہئے، جب ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہ کر رہی ہو، جب آپ کو تحفظ حاصل نہ ہو، جب مجرم پکڑے نہ جائیں، جب پولیس ابتدائی قانونی کارروائی بھی نہ کرتی ہو، جب پولیس کلوز سرکٹ ٹیلیویژن کیمرہ میں صاف نظر آنے والے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالے،وہ یونہی کھلے بندوں پھرتے رہیں، سڑکوں پر لوگوں کو لوٹتے رہیں، اے ٹی ایم بوتھ کے اندر یا باہر لوگوں سے رقم چھین لیں، پکڑے کبھی نہ جائیں، تو خوف تو ہوگا، بڑھے گا، رگ رگ میں اترتا جائے گا اور اس کے اثرات بھی ہوں گے، منفی ،برے، تکلیف دہ، فرد کے لئے بھی اور معاشرے کے لئے بھی۔
تازہ ترین