• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم کو پہلے ٹی ٹونٹی میں بُری طرح شکست ہوئی اور ایک بارش کی وجہ سے میچ نہیں ہو سکا، ہمارے پرانے اور خصوصاً نئے پانچوں کھلاڑی بُری طرح ناکام ہوئے، صرف تجربہ کار کھلاڑی مزاحمت کرتے رہے مگر پرانا کمبی نیشن برقرار نہ تھا۔

اس وجہ سے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جتوانے والے کھلاڑی اور سابق کپتان سرفراز جس نے 37میں سے 29ٹی ٹونٹی میچوں میں فتح دلوائی، ایک روزہ 35میں سے 21میچ جتوائے اور ٹیسٹ میچوں میں 13میں سے8ڈرا اور 4جتوائے، نیز آئی سی سی چیمپئن ٹرافی 2017کے فائنل میں انڈیا جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف 50اوورز میں 4کھلاڑیوں کے نقصان پر 338رنز اسکور کئے اور انڈیا کو 30.3اوورز میں محض 158رنز پر آئوٹ کر کے پاکستان کو 180رنز سے فائنل جتوایا، صرف سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد اس کو گھر بٹھا دیا گیا۔ 

نئے سلیکٹر‘ سابق کپتان مصباح الحق کی تقرری کے بعد اچانک اتنی بڑی تبدیلی تباہی کے سوا کچھ نہ تھی۔ راتوں رات فیصلہ کر کے قوم کو پھر امتحان میں ہی نہیں ڈالا بلکہ باہر سے لائے ہوئے اظہر علی کو کپتان بنا دیا گیا اور بابر اعظم جس کو ابھی کپتانی کا کوئی تجربہ نہ تھا، اس ابھرتے ہوئے کھلاڑی کو امتحان میں ڈال کر کپتان بنا دیا گیا۔ 

اب ایک وقت میں اس نے دو دو امتحانوں سے گزرنا تھا، وہ ٹیم کو سنبھالے یا پھر اپنا کھیل میں ردھم برقرار رکھے۔ ایسا کیا قصور تھا، کامیاب ترین کپتان جس نے قومی کھلاڑیوں میں جیتنے کا جذیہ پیدا کیا، ڈسپلن دیا اور کامیابیوں کے انبار لگا دیے۔ 

اس قدر ناقدری؟ اس نئے سلیکٹر سے پوچھا جائے ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ کرکٹ میں ایک اننگ اور 15رنز سے شکست کے بعد بھی عقل نہیں آئی؟ فوراً ٹیم میں تبدیلی کیوں نہ کی اور پھر اُسی شکست خوردہ ٹیم کو میدان میں اتار کر پاکستان کے کرکٹ ریکارڈ کا ستیاناس کر دیا۔ ایک ماہ میں 2تجربہ کار افراد استعفیٰ دے چکے ہیں، کیا پورا بورڈ مستعفی ہوگا تب آنکھ کھلے گی؟

قوم کب تک حکمرانوں کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے نقصان اُٹھاتی رہے گی، کھیل خصوصاً کرکٹ تو آپ کا ہی شعبہ تھا، اس کے تجربے سے ہی قوم کو کرکٹ جتوا دیتے کچھ تو آنسو پونچھ جاتے۔ باز آئی قوم ایسی تبدیلیوں سے جس سے ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ 

معیشت تباہی کے دہانے کی طرف رواں دواں ہیں، سیاست صرف وزیراعظم ہائوس تک رہ گئی ہے ایک مرتبہ پھر سب سیاست دان صف بندی میں ہیں۔ پلان سی اور ڈی دونوں میدان میں اترنے والے ہیں۔ مولانا صاحب آپ کو سیاست کی نماز پڑھانے کی پوری تیاری کر چکے ہیں۔ 

صفیں سراج الحق صاحب درست کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف لندن سے تکبیریں کہلوا چکے ہیں۔ اعتزاز احسن کے علاوہ ہر شخص پی پی پی کی وکٹ بچانے کے لئے ہر ناممکن کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ بلاول کو جب آپ نے آخری بار گلے لگا کر خوش آمدید کہا تو وہ سمجھا نواز شریف کی طرح اُس کے والد بھی کم از کم کراچی ٹرانسفر ہو جائیں گے، کچھ تو آرام ملے گا اور ڈاکٹر عاصم کا اسپتال پھر سے آباد ہوگا اور ذاتی معالجوں سے علاج بھی ممکن ہو سکے گا۔ پہلا مرحلہ تو مولانا فضل الرحمٰن نے کامیابی سے مکمل کر دیا ہے اور حکمرانوں کی عقل مفلوج کرکے نواز شریف کو لندن بھجوا دیا ہے۔ 

اب بیشک پی ٹی آئی کے بوجھ بجھکڑ اور لال بجھکڑ دونوں سر پیٹ کر دوبارہ نئی سیاسی چالوں میں لگے ہو ئے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان عمرہ کرنے جا چکی ہیں ان کو بھی ریسٹ کی ضرورت تھی۔ سو مولانا کے دھرنوں سے نجات، نواز شریف صاحب کا پریشر بھی ختم ہو چکا۔ 

رہ گئے الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کیس کے جوابات۔ اُس کے لئے 5دسمبر، ہنوز دلی دور است۔ پھر کوئی آسمانی سلطانی بجلی گر جائے گی۔ آخر مشرف کیس میں بھی تو راستہ نکل آیا ہے۔ ان شاء اللہ پی ٹی آئی اکائونٹس کی بھی کوئی راہ اللہ ضرور نکال دے گا۔ 

اب کچھ ہی دن باقی ہیں، قوم کو شاید ایک نہیں دو خوشیاں ملیں بلکہ ہو سکتا ہے خوشیوں کی ہیٹ ٹرک ہو جائے۔ آخری خبریں آنے تک سپریم کورٹ نے آرمی چیف کو 6ماہ کی توسیع دے دی ہے اور وفاقی حکومت کو مدتِ ملازمت اور قواعد و ضوابط طے کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں 6ماہ کے اندر قانون سازی کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ 

کیا حکومت 6ماہ کے اندر اس میں تبدیلی کر سکے گی جو بظاہر ناممکن نظر آرہا ہے کیونکہ حکومت کے اپوزیشن سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ اللہ پاکستان اور قوم کو سکون کے سانس جینے کا پھر موقع دے۔ آمین!

تازہ ترین