• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتوں نے دو بڑے مقدمات نمٹا دیے ہیں، جن سے سیاسی ہیجان ختم ہوا ہے، جو ان مقدمات کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ ایک بڑا کیس سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی سے متعلق تھا اور دوسرا بڑا کیس آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق تھا۔ 

پاکستان میں اس وقت جو سیاسی، سماجی اور معاشی بے یقینی کے حالات ہیں وہ مزید کسی ہیجان یا تلاطم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک اور معاملے پر بھی اگر عدالت توجہ دے تو اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے ایک اور سیاسی ہیجان کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ معاملہ سابق صدر آصف علی زرداری کی گرتی ہوئی صحت سے متعلق ہے۔ 

وہ بیرونِ ملک جانے کی بات نہیں کر رہے اور یہ بھی مطالبہ نہیں کر رہے کہ انہیں طبی بنیادوں پر ضمانت یا رہائی دی جائے۔ وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کرانے دیا جائے اور ان کا مقدمہ کراچی منتقل کیا جائے کیونکہ نیب کراچی نے ہی یہ مقدمہ بنایا ہے اور مقدمے میں لگائے گئے الزامات کی تفتیش کی جگہ بھی کراچی ہے۔

جب بھی اسیر سیاسی رہنماؤں کو ملک کے اندر یا ملک سے باہر علاج کی مطلوبہ سہولتیں فراہم کرنے کی بات کی جاتی ہے، کچھ لوگوں کے دلوں میں عام قیدیوں کا درد جاگ اٹھتا ہے اور وہ یہ دلیل دینے لگتے ہیں کہ علاج کے لیے یا طبی بنیادوں پر ریلیف صرف بااثر سیاسی قیدیوں کے لیے کیوں ہے۔ 

پھر جب حکومت اور ریاستی ادارے اسیر سیاسی رہنماؤں کو ریلیف فراہم کرتے ہیں تو ان لوگوں کے پاس ا س سوال کا جواب نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے۔ حکومت اور ریاستی ادارے یقیناً قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کو بھی ضرور مدنظر رکھتے ہوں گے۔ 

ہمارے ہاں ’’ملکی مفاد اور نظریہ ضرورت‘‘ ابھی تک حاوی ہے۔ عام قیدیوں کے لیے درد رکھنے والے لوگوں کو صرف سیاسی بیان بازی کرنا ہوتی ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کون سا غریب قیدی بیماری یا پولیس تشدد سے کب اور کس جیل میں مرا۔

آصف زرداری کی صحت کا معاملہ نہ صرف حقیقی ہے بلکہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہیں کسی مقدمے میں سزا بھی نہیں ہوئی ہے۔ کسی بھی مہذب ملک اور قوم میں ایسے قوانین نہیں ہوتے کہ محض الزامات پر کسی کو قید کر دیا جائے اور الزامات عائد کرنے والے کی یہ ذمہ داری نہ ہو کہ وہ الزامات ثابت کرے بلکہ ملزم خود اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرے۔ 

ہمارے احتساب کے قوانین کی بنیاد 1947کے بعد سے بننے والے ایبڈو اور پروڈا اور اس جیسے سیاہ قوانین ہیں، جن کا مقصد سیاست اور سیاستدانوں کو بدنام اور غیر موثر کرنا ہے۔ 

کسی کا ضمیر کیوں نہیں جاگتا۔ کوئی یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ آصف علی زرداری پہلے بھی گیارہ بارہ سال بے گناہ قید رہے۔ اس کی تلافی کون کرے گا؟ اب بھی وہ کوئی الزام ثابت ہوئے بغیر ایک جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے قید میں ہیں اور ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق وہ سخت علیل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کے سب سے بڑے منصب یعنی صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے ہیں اور اس ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ 

جن کی حقیقی طور پرعوام میں جڑیں ہیں۔ ہمارے دانشوروں اور ہماری ہیئت مقتدرہ کا بیانیہ کچھ ہوتا اور عمل کچھ ہوتا ہے۔ یہ اپنے ہی بیانیے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ اندازہ نہیں کہ وہ وطن عزیز کو کہاں لے گئے ہیں۔

یہ بیانیہ بھی ایسے دانشوروں اور ہیئت مقتدرہ کا ہے کہ آصف علی زرداری کا تعلق سندھ سے ہے اور پنجاب انہیں اپنا ’’سگا‘‘ نہیں سمجھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی بنیادی طور پر پنجاب کی پارٹی بن کر ابھری تھی اور اسے وہاں سے سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں۔ 

سندھ میں صوبائی حکومت بنانے کے لیے اس کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں تھی۔ حکومت قائم کرنے کے لیے دوسری پارٹیوں کے ایک دو ارکان کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ پنجاب کے عوام چھوٹے صوبوں کے عوام کا ساتھ نہیں دیتے۔ جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو مظلوم سندھی رہنما بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ صرف ان کا سیاسی قد چھوٹا کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کی سیاست کو بھی محدود کرنا چاہتے ہیں۔ 

پیپلز پارٹی کی قیادت کا شمار نہ صرف پاکستان بلکہ تیسری دنیا کی نمایاں قیادت میں ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری نے پاکستان کے دستور کو 18ویں ترمیم کے ذریعہ نہ صرف بحال کیا بلکہ اس کی روح کے مطابق اسے بہتر بنایا۔ انہوں نے پاکستان کو خارجی دنیا میں قائدانہ کردار دلانے کی بھٹو اور بینظیر کی پالیسی کو آگے بڑھایا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماورائے آئین اقدامات کے راستے بند کیے۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کو اس لیے باہر نہیں جانے دیا گیا کہ وہ پنجابی ہیں بلکہ اس لیے جانے دیا گیا کہ انہیں خدانخواستہ یہاں کچھ ہو جاتا تو سیاسی حالات کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ میاں نواز شریف مقدمات میں اس وقت پھنسے، جب وہ پہلے والے نواز شریف نہیں رہے۔ پنجابی ہونے کے باوجود وہ اور ان کا خاندان ناقابل یقین مشکلات کا شکار ہیں۔ 

اگر تنگ نظر قوم پرستی کے بیانیہ کو فروغ دے کر قومی اور عوامی جمہوری سیاست کو کمزور کرنے کے مقصد کے تحت آصف علی زرداری کو ریلیف نہیں دیا جا رہا ہے تو یہ پھر واقعی ایک خطرناک سیاسی کھیل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں سیاسی ہیجان پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔ آصف علی زرداری کی درخواستوں پر بھی غور کیا جائے۔ 

ملک میں احتساب کیسے ہوگا؟ اس سوال کا جواب شاید اب ہمیں بہت آگے تک بھی نہ مل سکے کیونکہ احتساب کا نظام ملکی تاریخ میں پہلی اپنی ساکھ سے متعلق حقیقی سوال سے دوچار ہے۔ ملک کو نئے پیدا ہونے والے بحرانوں سے نکالنے کے لیے پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کا کردار مستقبل میں سب سے زیادہ اہم نظر آ رہا ہے۔

تازہ ترین