• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یکجہتی

یکجہتی، آئین، جمہوریت، سیاست ایک عوامی خدمت، اخلاقیات، قومی مفاد یہ سب الفاظ صرف الفاظ کی حد تک ہمارے زباں زد ہیں، ان کے عملی ثمرات 72برس ہوگئے ۔ اس مملکت خداد پاکستان میں کہیں اور کبھی نظر نہیں آئے، وجہ نمائشی کارکردگی اور ذات کے حصار تک محدود رہنا ہے، یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں اگر عملاً بھی ہم قومی سطح پر ملکی مفاد میں یکسو ہوتے تو آج یہ ملک کن بلندیوں کو چھو رہا ہوتا کسی کو اس کا اندازہ بھی نہ ہوتا مگر سؤ قسمت بقول اقبال’’یہ امت روایاتمیں کھوگئی‘‘ ہم نے یکجہتی کی مالا جپی اور اس کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے، نتائج ہمارے سامنے ہیں، 72برس قومی حادثات اور ہماری دانستہ، نادانستہ نادانیوں، نالائقیوں، نااہلیوں کی نذر ہوگئے، ابھی ہم نے سبق نہیں سیکھا، اب سبق سکھا دینے والے حالات کا انتظار کئے بغیر ذاتی رنجشوں کو چھوڑ کر ا پنے لہجے درست کرکے سیاست کو پیشہ نہیں خدمت کے سانچے میں کر ڈھال یاد ماضی کے عذاب سے نکل کر آگے بڑھنا ہوگا، اچھی حکمرانی جو ہم نےشاذو نادر ہی دیکھی صرف باہمی مشاورت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، لمحہ شکر ہے کہ ہماری عدالتیں آزادانہ انصاف دے رہی ہیں، معاملات بتدریج ٹھیک ہوتے جائیں گے، سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیاں بنا کر ہم نے کیا پالیا، ناامیدی سے بڑا کفر کیا ہے، یہ وطن اللہ کی عطا ہے، یہاں کی اکثریت غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہے، گالم گلوچ سے کچھ حاصل نہیں، انا کے لات منات گرانے ہوں گے، اختلاف برائے اصلاح محروم عوام کا قرض ہے جو حکمرانوں اور اپوزیشن نے مل کر چکانا ہے اور کوئی راستہ نہیں۔

شور

شور دراصل زندگی کی آواز ہے مگر یہ حد سے گزر جائے تو آب شو ہے اور وہ تو ایک جانکاہ سزا ہے، پہلے تو ہم حیدر علی آتش کے اس شعر میں برپا شور تک محدود تھے؎

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

مگر اب تو ایسے شواہد سر ہوگئے کہ شور بند ہو تو جاگ جاتے ہیں، جہاں عبادت بھی بذریعہ لائوڈ سپیکر ہو وہاں قبولیت کا عالم کیا ہوگا اور تو اور اب یہ لائوڈ سپیکر اس قدر ہماری رگوں میں سرایت کر گیا ہے کہ پھیری والے بھی اس کے بغیر پھیری نہیں لگاتے، عبادت آن لائوڈ سپیکر کی ایک صورت نے تو ہمیں حیرت میں ڈال دیا، ایک سبزی فروش نے اپنی ریڑھی پر لائرڈ سپیکر نصب کرکے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آلو لے لو، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کریلے لےلو الغرض تمام سبزیوں سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن رحیم کی پکار اور بار بار ایک بار میں نے اسے کہا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا صحیح استعمال یہ ہے کہ ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھ لی جائے، یہ نہیں کہ سارا دن کام کے اول آخر بسم اللہ وہ بھی بذریعہ لائوڈ سپیکر یہ درست نہیں، ایک زمانہ تھا کہ علماء کرام نے آلۂ مکبر الصوت یعنی لائوڈ سپیکر کے استعمال کو حرام قرار دینے کا باقاعدہ فتویٰ جاری کیا تھا اور اب یہ منظر کہ؎

بغیر لائوڈ سپیکر مرا شیخ کھانستا بھی نہیں

بھلے وقتوں میں قانون سازی ہوئی تھی کہ لائوڈ سپیکر صرف اذان اور خطبہ کے لئے استعمال کرنے کی اجازت ہوگی، بصورت دیگر یہ قانون شکنی ہوگی اس قانون پر عملدرآمد ہوجائے تو اس سے بھی کافی افاقہ ہوسکتا۔

نظر لگے نہ کہیں اس کی کارکردگی کو

غالب کا ایک نہایت اچھا شعر ہے مگر ہم نے حسب حال اس میں قدرے تصرف کیا ہے؎

نظر لگے نہ کہیں اس کی کارکردگی کو

یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں

ان دنوں نااہلی کا ذکر ہر جانب اس کثرت سے ہورہا ہے کہ ناااہلی ا یک طرح کی اہلیت نظر آنے لگی ہے، اگر نااہل کو بار بار اس لقب سے نوازا جائے تو وہ اسے نوائے سروش سمجھ کر اپنے اندر پوشیدہ اہلیت کو جگائے، برا نہ منائے ، ہمیں ایک فلم کا سین یاد آگیا مصطفیٰ قریشی نے ایک ناواقفِ آداب جیل قیدی سے کہا، نواں آیاںاے سوہنڑیا! تو وہ قیدی کوالی فائیڈ ہوگیا تھا، یہ ازراہ تفنن کہا مگر ہماری مراد یہ ہے کہ پرانے سیاستدان جو اب اپوزیشن کی زینت ہیں وہ نئے حکمرانوں کو جی آیاں نوں کہیں اوررموز حکمرانی سے آگاہ کریں اور یہ کام غریب عوام کے بہترین مفاد میں کیا جائے اور ہاں یاد آیا کہ مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، بہت سی غلط فہمیاں کسی مخالف سے ایک میٹھا بول دور کرسکتا ہے، سیاست ہو یا حکمرانی عوامی خدمت ہے بلکہ عبادت ہے اسے پیشہ نہ بنایا جائے، یہ وطن، نعمت عظمیٰ ہے اس کی قدر و قیمت بھارتی مسلمانوں سے پوچھیں، کشمیریوں سے دریافت کریں فلسطین جانے کی کوشش کی کریں ارض وطن جائے نماز ہے اس کے چپے چپے پر شکرانے کے نفل پڑھنے چاہئیں، کرپشن کا ہر کوئی مخالف ہے یہاں تک کہ کوئی کرپٹ بھی اس کو اچھا نہیں جانتا مگر اس کو ختم کرنے کا بھی کوئی طریقہ سلیقہ ہوتا ہے، ادارے کام کررہے ہیں، آپ فوری طور پر مہنگائی کا کچھ کریں ورنہ سب نمازیں قضا ہوجائیں گی۔

’’منصور‘‘ کو برا مت کہو

سنا ہے پنجاب میں تبادلوں کی’’پنیری‘‘ آئی ہوئی ہے۔

ہماری گزارش ہے کہ کوئی ’’ہنیر ‘‘ نہ آجائے، یہ بھی نہ ہو کہ خرابی اسپتال میں ہو تبدیلی پولیس میں ، علی ہذاالقیاس۔

سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی سے معلم، متعلم اور مادر علمی میں مثبت رجحانات کو فروغ ملتا ہے، بصورت دیگر طلبہ نسلی، لسانی، مذہبی بنیادوں پر اپنے جتھے بنالیتے جو کہ انتہائی نقصان دہ ہے۔

باقی تو سب ٹھیک ہے بس شین قاف درست ہونے والی۔

میڈیا وقت کا منصور ہے جن کے بارے سید علی ہجویری نے کشف ا لمحجوب میں لکھا ’’کوئی میرے بھائی منصور کو برا تو نہ کہے۔

واضح رہے کہ منصور کا پورا نام حسین ابن منصور حلاج ہے۔

­­­­­­

تازہ ترین