• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحت کا نظام دنیا کے تمام ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کے لیے لئے اولین ترجیح ہوتا ہے۔ یہ عالمی سطح پر قبول کیا گیا ہے کہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لئے، پالیسی سازوں، گورننس کے اداروں ، ڈاکٹروں، ایڈمنسٹریٹرز، نرسوں، پیرامیڈکس، فارماسسٹس، لیبارٹری کے سمیت صحت کے کے نظام کے تمام سٹیک ہولڈرزکو اہم اور اجتماعی کردار ادا کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے، پاکستان کا نظام گزشتہ چند عشروں میں عوام کو موثر انداز میں خدمات فراہم پہنچانے میں ناکام رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے معیار میں مزید کمی آتی جارہی ہے لیکن اس نظام میں سیاسی مداخلت، اسپتالوں میں خودمختاری کا فقدان، سیکرٹریٹ کی سطح پر اقتدار کا ارتکاز ایسے مسائل ہیں جن کا حل کو ئی حکومت نہیں کر پائی۔ موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں عوام کو معیاری صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لئے صحت کے نظام کو بہتر بنانا اولین ترجیحات میں شامل تھا۔ پی ٹی آئی کی صحت اصلاحات میں بہت سارزے دیگر اقدامات شامل بھی ہیں تاہم ان کا ایک اہم جز ومجوزہ ومیڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن ایکٹ ہے گزشتہ کچھ مہینوں سے پنجاب میں اس ایکٹ کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔ ایک طرف مختلف تنظیموں کی جانب سے اس ایکٹ کے خلاف سخت احتجاج کا سلسہ جاری رہا۔دوسری طرف حکومت ان اصلاحات پر عمل درآمد کے لئے پُرعزم نظر آئی۔ آخر ایم ٹی آئی ایکٹ کیا ہے؟ یہاں ہم کچھ سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن ایکٹ کا مرکزی نکتہ بڑے اداروں کو انتظامی اور مالی خود مختاری دینا ہے۔گویا کہ سیکرٹریٹ سے اختیارات کو مقامی سطح پر منتقل کرنا اور پنجاب بھر کے میڈیکل ٹیچنگ اداروں اور ان سے وابستہ اسپتالوں دیگر مراکز کو خود مختار بنا کر، ان کوتعلیم اور یسرچ کے بہترین ادارے بنانا۔ اس ایکٹ پر ایک اعتراض گورننگ بورڈ کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔ ہر تدریسی ادارے کا انتظام بورڈ اینڈ گورنرز کے زیر انتظام ہو گا۔ اس ایکٹ کے تحت انتظام ایک فرد کے بجائے ایک بورڈ کے ہاتھ میں ہو گا جس میں صحت کے ماہرین کے علاوہ مینجمنٹ، مالی امور اور بڑے اداروں کو چلانے کے لیے دیگر فیلڈز کے تجربہ کار ماہرین شامل ہونگے۔ اس ایکٹ کا مقصد بڑے پیمانے پر سرکاری ہسپتالوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بڑھانا ہے جو انہیں سیاسی اثر و رسوخ سے پاک بنائے، کارکردگی پر بنیاد پر نظام قائم کرے اور 24 گھنٹوں کی ایمر جنسی خدمات کی دستیابی کو یقینی بنانے کے علاوہ ، ڈاکٹروں اور معاون عملے کی تنخواہ کے ڈھانچے کو بہتر بنائے۔ اس میں سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے لئے نجی پریکٹس کا بھی ایک ماڈل موجود ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے اگر ایک حکومت کو اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کا اختیار حاصل ہے اور اگر وہ زیادہ تر مریضوں اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے فائدے میں ہے تو پھر اس کا راستہ احتجاج سے کیوں روکا جائے؟ بعض تنظیموں اور فورمزکی طرف سے ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ ایکٹ شاید سرکاری اداروں کی نجکاری کا منصوبہ ہے۔ حکومت بار بار یہ کہ چکی کہ یہ سرکاری ملکیت والے ادارے ہیں اور حکومت کی طرف سے نامزد کردہ افراد اور حکومت ہی کے زیر نگرانی یہ ادارے چلائے جائیں گے۔ ون لائن بجٹ بھی حکومت ہی دے گی، اور یہ بدستور حکومتی ادارے ہی رہیں گے۔ وزیر صحت اور وزیر اعلیٰ آفس کے نمائندگان اور اعلیٰ افسران صوبائی بورڈ کا ایک حصہ ہوں گے ۔ میڈیکل یونیورسٹیوں کے ریٹائرڈ وائس چانسلر اور قانون اور خزانہ کے محکموں کے اہم اور قابل ذکر افراد ان اداروں کے معاملات کی نگرانی کریں گے ان معاملات میں گورننگ بورڈ کے ممبرز کاانتخاب بھی شامل ہے۔ ایم ٹی پر ایک اور اعتراض جاب سیکورٹی کے حوالے سے ہے اور یہ غلط تصور کہ اس سے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کی باقاعدہ ملازمتوں کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ حالانکہ ڈاکٹرز کو انتخاب کی سہولت دی گئی ہے کہ وہ مروجہ پے سکیل یا مارکیٹ بیسڈ تنخواہ کے تحت اپنی مرضی سے ملازمت کر سکتے ہیں۔ اس نظام کے تحت ملازمت کا انتخاب کرنے والوں کے لیے زیادہ تنخواہ کے ساتھ 3سال بعد کارکردگی پر مبنی نظام متعارف کروا جا رہا ہے۔ عملے کو کو ادارہ کی وضع کردہ پالیسی کے مطابق تنخواہ دی جائے گی اور کارکردگی کے بہتر ہونے کی صورت میں، تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ ادارہ مریضوں کو موثر نگہداشت کی فراہمی جاری رکھنے کے نظام کو مزید بہتر کر کے کارکردگی کو بہتر کریںگے۔ ایم ٹی آئی تنظیموں کی مخالف تنظیموں کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ یہ ایکٹ بورڈ کو اقربا پروری کا موقع فراہم کرسکتا ہے یا اس میں اضافہ کرے گا ۔ ہمارے سیاسی مداخلت کے کلچر کی تاریخ کی روشنی میں یہ تشویش غلط نہیں ہے۔ تاہم حکومت کا موقف ہے کہ انتظامیہ کے کسی بھی عہدیدار کو کسی فرد کا نشانہ بنانے کا کوئی حق نہیں ہوگا اور اگر ادارے کا کوئی ملازم یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھ غیر جانبدارانہ رویہ رہا ہے تو، اسے بعد میں تینوں فورمز کے سامنے اپیل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ یعنی بورڈ آف گورنرز، صوبائی بورڈ اور بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان۔ دیگر اہم خدشات میں عوام کے لئے مہنگا علاج شامل ہے خاص طور پر وہ پرمریض جو نجی طبی سہولیات کے متحمل نہیں ہیں۔ محکمہ صحت یہ بار بار کہ چکا ہے کہ تمام خدمات، تشخیص اور دوائیں مریضوں کے لئے مفت رہیں گی اور انصاف ہیلتھ کارڈ عوام تک معیاری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی فراہمی کو فروغ دینے میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ انصاف ڈاکٹرز فورم کا خیال یہ ہے کہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن ایکٹ آگے بڑھنے کا راستہ ہے کیونکہ یہ عالمی طور پر آزمودہ نظام ہے اور اور صحت کے نظام میں موجودہ پیچیدگیاں کو حل کرنے کی جانب اہم قدم ہو گا۔ تاہم اصل چیلنج محض اس ایکٹ کا تعارف نہیں ہے، بلکہ اس کی حقیقی روح میں اس کا کامیاب نفاذ ہے۔

تازہ ترین