• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جونہی بحران نے دستک دی تو ملک بھر کے سنجیدہ اور فہمیدہ طبقوں نے عقل و دانش کے در وا کئے۔ کم و بیش سبھی قوتوں اور سیاسی دھڑوں کا اجتماعی خیال تھا کہ جمہوری چاند، گرہن سے بچے اور حسن ماند نہ پڑے۔ اس میں اپوزیشن کی لیاقت اور فراست کو داد دینا پڑے گی کہ کسی جانب سے جلتی پر تیل نہیں چھڑکا گیا۔ کہیں سے نظریہ ضرورت کا تاثر ابھرا نہ مارشل لاء کی آمد کے آثار نظر آئے۔ کسی ’چمک‘ کا تذکرہ ہوا نہ عدلیہ پر حملہ کی کسی مثال ہی نے جنم لیا۔ بہت سی خامیاں ابھی ہمارے سیاسی کلچر یا اداروں میں ضرور ہوں گی، لیکن اس دفعہ ایجنسیوں کی حکومت کی بازگشت تھی نہ ’اور لائن کٹ گئی‘ کا شور۔ مجموعی طور پر ذمہ دارانہ رویوں کا قابل ستائش جمال منظر پر غالب رہا۔

ہمارے ہاں رواج ہے کہ اپوزیشن تنقید کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی پھر اس میں مقدس کو رگڑا لگے یا معتبر کو، بس چل سو چل ہوتا ہے۔ جب آرمی چیف کا مدت ملازمت کا کیس عدالت عظمیٰ میں زیر بحث تھا ٹھیک انہی لمحوں میں حزب اختلاف بھی اسلام آباد میں موجود تھی، اے پی سی بھی چلی مگر سبھی لیڈروں نے جذبات و اختلافات پر مکمل قابو رکھا۔ اس عمل کی شعوری دانشمندانہ کوشش کو حکومت تسلیم کرے نہ کرے لیکن اہل نظر سے یہ سب پوشیدہ نہیں رہا۔ داد کے مستحق وہ سب حساس اور مسلح ادارے بھی ہیں جنہوں نے انا کو پس پشت اور حب الوطنی کو سامنے رکھا۔ حالات کے اس موڑ پر عدلیہ نے جو باب کھولے اور جس ورق گردانی پر سیاسی لوگوں کو مجبور کیا، ان اسباق میں چشم بینا کے حاملین کیلئے جام جہاں نما ہے۔ گویا محسوس یہ ہوا کہ جب عدالت کسی رہنمائی کی جانب بڑھ رہی تھی اس کے کندھوں پر کوئی ثقالت نہیں تاہم من میں ثقاہت ضرور تھی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں ایک اکیڈمک جمہوری پارٹی کا اعزاز رکھنے والی پاکستان پیپلزپارٹی ان چھ ماہ میں کیا لائن لیتی ہے جس کا موقع عدالت عظمیٰ نے فراہم کیا ہےکہ چھ ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی پارلیمنٹ قانون سازی کرے تاکہ سیدھی طرح گلشن کا کاروبار چلے۔ کیا خوب واضح ہوا کہ پارلیمنٹ کو سپریم کا درجہ حاصل ہے جس کو قائم و دائم رکھنا قانون سازوں اور سیاسی قائدین کا فرض ہے۔ سردست تو آرمی چیف کو 6 ماہ کی ایکسٹینشن مل گئی۔ اب آگے پارلیمنٹ پر منحصر ہے۔ عہد حاضر کے زیرک سیاستدان مولانا فضل الرحمن نے بھی تین چار دن کے بحرانی دنوں میں کسی شعلہ بیانی کو رواج نہیں بخشا بلکہ اس بحث کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کسی افسر کی سروس کا معاملہ ہے اور وہ اس پر بات نہیں کریں گے‘‘۔ تاہم ان کی قابل غور بات یہ سامنے آئی کہ ’’فوری تازہ عام انتخابات کے نتیجے کے طور پر آنے والی نئی پارلیمان اعلیٰ کمانڈر کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو طے کرے گی‘‘۔ جانے اسے مولانا کا اعتماد کہا جائے، سیاسی بیان یا نظریاتی لائن ؟ ابھی اس بیان کو سمجھنا کافی حد تک قبل از وقت ہے سو تیل اور تیل کی دھار کو مزید دیکھنا پڑے گا۔ دوسری طرف شریف برادران نے بھی اس کیفیت میں سیاسی نقارہ نہیں بجایا۔ مصلحت کے علمبردار آصف علی زرداری ان دنوں اپنی استقامت کا لوہا منوا رہے ہیں پس ان کی طرف سے بھی کوئی لب کشائی نہ تھی۔ بلاول پیپلزپارٹی کے 52 ویں یوم تاسیس کے لیے کراچی سے کشمیر تک تانے بانے بنتے رہے اور انہوں نے بھی اس کیس پر جوش خطابت کو ہوا نہیں دی۔ (تاہم دیکھنا یہ ہے یوم تاسیس مظفرآباد آزاد کشمیر اجتماع میں 30نومبر 2019میں بعد از فیصلہ کیا اشارہ دیتے ہیں۔ نانا کی لائن اپنا لیں تو بہتر ہوگا)

مجموعی صورت حال سے اب یوں لگا کہ 1973 کے آئین اور اس کے بعد 18ویں ترمیم کو تقویت ملی۔ آئین پر لٹکتی 8 ویں اور 17ویں ترامیم جیسی تلواریں اور 58 ٹوبی جیسی آئین پر تیر اندازی کے راستے بند ہونے۔ قانون، قانون سازی اور قانون سازوں کو عزت ملی۔ وہ بیتے دلخراش دن بھی یاد ہیں جب ایک بینچ کی طرف سےمشرف کے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کو جائز جانا۔ اقتدار پر قبضہ کو درست سمجھا۔ ایمرجنسی کے نفاذ کو صحیح مانا۔ آئین کی معطلی اور پی سی او عمل کو نظریہ ضرورت کی چھتری دی۔ ریاستی امور چلانے اور اقدامات کی توثیق کردی۔ بینچ نے فرمادیا کہ مشرف نے ماورائے آئین طریقے سے جائز طور پر اقتدار سنبھالا... بس اس پر مزید راقم نے کچھ نہیں کہنا۔ بہرحال اب سماں بدلا بدلا سا اور خوشگوار لگا ہے۔ اور کاش یہ حکومت بھی اب بدلی بدلی سی لگے اور ’’وعدۂ تبدیلی‘‘ کو یاد کرے۔ حیرت ہے کہ فروغ نسیم جیسے وزراء نے شکر اور مصلحت کے بجائے عجیب ڈھول پیٹا کہ ’’حزب اختلاف کی جماعتوں نے پارلیمان میں ترامیم کی منظوری کی حمایت نہیں کی تو وہ توہین عدالت کی مرتکب ہوں گی‘‘۔ اسے اشتعال دلانا نہیں کہتے، تو کیا کہیں گے؟ جنابِ شیخ کا کہنا کہ نون لیگ ہاتھ جوڑ کر مجوزہ ترامیم کیلئے ووٹ دے گی، اس پر فقط انا للہ وانا الیہ راجعون ہی کہنا کافی ہے۔ ارے بابا! فہم و فراست کے گر دریچے کھول ہی دیے ہیں عدالت عظمیٰ نے تو آپ اسے گن پوائنٹ عمل تو نہ بنائیے۔ ایسا رویہ کابینہ کے اراکین کو زیب نہیں دیتا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ووٹرز کی اہمیت و افادیت حکومتی ووٹرز کے عین مطابق ہیں، اور جنابِ وزیر قانون کیا آپ کو بھی بتانے کی ضرورت ہےکہ پارلیمنٹ میں عددی اعتبار سے سب برابر قانون ساز ہیں! اور یہ مشرف پسند لوگوں کا مائنڈ سیٹ کب بدلے گا؟

ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم بلوچستان اور کے پی کے ممبران اس ’’آئینی ہاں‘‘ میں جلد ہاں ملا دیں گے۔ سندھ اور پنجاب آئینی ہاں میں ہاں ملانے سے قبل حکومت کو آئینہ بھی ضرور دکھائے گا!

تازہ ترین