• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نومبر کا مہینہ فیض کا مہینہ ہے، کئی سالوں کی طرح اِس سال بھی فیض میلے نے تین دن لاہور میں اہل علم و ادب اور ثقافت کی توجہ الحمرا کی سمت مبذول رکھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ فیض کے اس دنیا سے اگلی دنیا میں منتقلی کے بعد بھی ان کے افکار کا فیض جاری ہے۔ کچھ لوگ اُن کے نظریے سے عشق کرتے ہیں اور اُسے اپنے لئے رہنمائی کا ضابطہ تصور کرتے ہیں تو کچھ ان کی شاعری کے شعری حُسن کی محبت میں گرفتار ہیں۔ فیض وہ خوش قسمت شاعر اور انسان ہے کہ جس پر محبت، زندگی کے تلخ موسموں اور اختلافات کی دھند میں بھی مہربان رہی۔ خلقت نے انھیں چاہا، سراہا اور ہمیشہ پلکوں پر بٹھایا۔ اگرچہ اہل اقتداار کا رویہ اُن سے مختلف رہا فیض کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہر سال نہ صرف لاہور میں ایک بڑا میلہ سجتا ہے جس میں دنیا جہان کے ادب، علم، کلچر، موسیقی اور فن کی دیگر جہتوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں بلکہ مختلف ممالک میں اس طرح کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں اور ان کا اہتمام وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں فیض کے فلسفے سے محبت ہے، جو فیض کی فکر کو عام کرنا چاہتے ہیں اور جنہوں نے فیض کی سوچ کو اوڑھنا بچھونا بنا کر رکھا ہے۔ فیض احمد فیضؔ کی شاعری اور فکر کے حوالے سے ہزاروں کتابیں لکھی گئیں جو کہ ایک بہت بڑا خراج عقیدت بھی ہے اور اُن کے نظریے کی بیت بھی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ فیض احمد فیض ترقی پسند سوچ کے حامل شاعر تھے۔ اسی لئے تمام عمر معاشی، معاشرتی اور سماجی استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ انہوں نے ایک عام آدمی کا درد محسوس کیا اور اسے اپنے خوشنما شعریت کے پرچارک لفظوں میں ڈھالا۔ ان کی فلسفیانہ فکر کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں ایک صوفیانہ رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ ایک تو فیض کی اپنی شخصیت میں تصوف کا گہرا رنگ تھا، وہ بہت ہی حلیم، روادار اور محبت کرنے والے انسان تھے اور پھر جو فرد انسانیت کی بات کرے وہ کسی نہ کسی حوالے سے تصوف کے رستے کا مسافر ہوتا ہے۔ فیض کی شاعری میں ظاہر پرستوں کے حوالے سے جو بلند احتجاج موجود ہے وہ بھی صوفیوں کا وتیرہ رہا ہے۔ ہمارے بعض مذہبی رہنماؤں نے ہمیشہ طاقتوروں کی ہاں میں ہاں ملائی اور ان کے جھوٹ کو سچ کرنے کے لئے عوام کی سوچ کو ورغلایا۔ فیض نے دیگر صوفیاء کی طرح ان کے دہرے معیار اور منافقت کے خلاف آواز بلند کی۔

فیض کو اس بات کا زیادہ رنج ہے کہ ہمارے یہ رہنما لوگوں کو اس بات پر قائل کر لیتے ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے یہ قسمت کا لکھا ہوا ہے اس لیے اسے قبول کرلینا ضروری ہے اور ظالم کا ہاتھ پکڑنا یا اس کی فکر کے خلاف جانا کسی طور درست نہیں۔ فیض اس روش کو نا پسند کرتا ہے اور انہیں للکارتے ہوئے اپنے خدا سے شکوہ کرتا ہے کہ وہ تیرا نام لے کر تیرے بندوں کا استحصال کر رہے ہیں کیونکہ وہ سادہ لوح عوام کو کہتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ ظلم و زیادتی اور ناانصافی برپا ہے وہ تیرے حکم سے ہے اس لیے ظالم کی بادشاہی کو تسلیم کر لو اور بغاوت کا خیال دل سے نکال دو۔ یہ سچ ہے کہ خدا قادرِ مطلق ہے مگر اس نے انسان کو فیصلے کا اختیار دے کر اس کی مرضی کو اہمیت دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ظلم نہ سہنے بلکہ ظلم کا مقابلہ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیض شکوہ کرتا ہے کہ وہ جو ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ ہر ظلم تیرے حکم سے ہے۔ اگر وہ درست ہیں تو پھر میں کس کی بات سنوں۔ میں اگر تیری ذات کا اقرار کرتا ہوں تو تیرا عدل میرے سامنے ہے لیکن وہ جو تیرے نمائندے، تیرے ٹھیکیدار بن کر تیری آیات کی غلط تو جیہہ کرتے ہیں۔ اگر ان کی بات مانتا ہوں تو پھر تجھ پر سے بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔

وہ یہ کہتے ہیں تُو خوشنود ہر اک ظلم سے ہے

وہ یہ کہتے ہیں ہر اک ظلم ترے حکم سے ہے

گر یہ سچ ہے تو ترے عدل سے انکار کروں

اُن کی مانوں کہ تری ذات کا اِقرار کروں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین