• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو چار سالوں سے فیض فیسٹیول میں سرخ سرخ لہرائے کی گردان جاری تھی لیکن اس بار منحنی سی لڑکی کی انقلابی چنگھاڑ نے سوشل میڈیا کو ہلا ڈالا۔ لیدر جیکٹ میں ملبوس دھان پان سی لڑکی نے جب للکارتے ہوئے نظم سرفروشی کا شعر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے؍ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ ادا کئے تو وہ منظر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ یہ ایک انوکھا منظر تھا جو پاکستانی معاشرے میں کم کم ہی میسر آتا ہے۔ اس کی بدن بولی، لہجہ اور ادائیگی نے بہت سوں کے رونگٹے کھڑے کر دیے اور بہت سوں کی توجہ حاصل کرلی۔ فیض فیسٹیول کے تینوں روز یہ ٹولی پیغام انقلاب دہراتی رہی اور چند ہزار حاضرین کا لہو گرماتی رہی۔ 17نومبر کو فیسٹیول ختم ہو گیا تاہم اس کےتین روز بعد وڈیو کلپ سرخ ہوگا، سرخ ہوگا، ایشیا سرخ ہوگا، سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ ہوا تو اس نے آنکھ جھپکتے ہی توجہ حاصل کر لی۔ نیوز ویب سائٹس نے اس ٹولی کے دھڑا دھڑا انٹرویوز کرنا شروع کر دیے اور ان کا سیاق و سباق پوچھا۔ سرخ انقلاب کی تمنا کو وطن کے حالات پر منطبق کریں تو 1951ء کی وہ یادیں ابھر آتی ہیں جب بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اذہان نے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل اکبر خان بغاوت کےمنصوبہ ساز ٹھہرے، انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ اور سیکریٹری جنرل پاکستان کمیونسٹ پارٹی سجاد حیدر اور حسین عطا سمیت پندرہ افراد پر مقدمہ چلا اور پابند سلاسل کر دیا گیا۔ طویل عرصہ سے پاکستان میں سرخ انقلاب کے حامی موجود ہیں اور اس کا پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں مگر ان کو آج تک بھرپور پذیرائی نہ مل پائی۔

گزشتہ دورِ حکومت میں ملک سے نواز شریف فیکٹر کو ختم کرنے کیلئے حکومت کے خلاف کرپشن کا بیانیہ گھڑا گیا، پاناما لیکس کو نواز شریف سے زبردستی جوڑا گیا، جلسےجلوسوں دھرنوں میڈیا سوشل میڈیا الیکٹرونک میڈیا غرض ہر ذریعہ ابلاغ استعمال کیا گیا ،دولت پانی کی مانند بہائی گئی۔ نئے پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان کا بیانیہ تشکیل دیا گیا، بیانیہ پھیلایا اور اس قدر پھیلایا کہ یہ زبان زد عام ہو کہ اسے بھی ایک موقع ملنا چاہیے، عوام کو بہت سی امیدیں تھیں کہ انتخابات کے بعد سب کچھ ہرا ہرا ہو جائے گا لیکن انہیں معمولی سا بھی کوئی ریلیف نہ ملا، ٹماٹر منترا نے عوام کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ اندرونِ ملک حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں جبکہ بیرونِ ملک حالات تو پاکستان کیلئے کبھی بھی سازگار نہ رہے ہیں اور عمرانی انقلاب کی آخری اُمید دم توڑتی جا رہی ہے۔ سولہ ماہ گزر چکے ہیں بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہے، ایک طرف وزراء کی تبدیلی کی ہوا ہے تو دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی نوشتہ دیوار بن چکی ہے، تیاریاں حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں، امید ہے دسمبر میں پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کی آمد کے بعد وسیم اکرم پلس کا بیانیہ بھی دیگر بیانیوں کی مانند ٹھس ہو جائے گا۔

کرفیو کے شکنجے میں جکڑے مقبوضہ کشمیر میں دنیا کی سب سے بڑی نسل کشی تیزی سے کی جاری ہے۔ عوام پریشان نہیں بلکہ بے حال ہو چکے ہیں، کاروبار بند پڑے ہیں، معیشت تباہ ہو چکی ہے، ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ سوال اٹھانا ممنوع قرار پایا ہے۔ صحافی سوال کریں، اپوزیشن آواز بلند کرے تو وزرا پریس کانفرنس میں ایسی توجیہہ لیکر آتے ہیں کہ عوام ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ اب عوام بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب وہ وقت آئے گا جب ہر طرف خوشحالی ہوگی، روشنیوں بھری فضا ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین