• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔آئندہ چند ماہ میں انتخابات کا عمل مکمل ہوکر نو منتخب حکومت کی تشکیل کا مرحلہ پایہٴ تکمیل تک پہنچے گا۔ اگرچہ پاکستان میں اس وقت امن و امان کی تشویشناک صورتحال ہے۔ بلوچستان میں ہزارہ ٹاؤن کا روح فرسا واقعہ، کراچی میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور فاٹا میں بم دھماکوں کے واقعات نے ہر ذی شعور پاکستانی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں حالات کی خرابی کے باوجود پوری قوم پُرامید ہے کہ انشاء اللہ دہشت گردی کے عفریت سے جلد جان چھوٹ جائے گی اور اس کا واحد حل بروقت الیکشن کا انعقاد ہے۔ پاکستان میں موجودہ ناگفتہ بہ صورتحال میں امریکہ کے تمام دباؤ کے باوجود گوادر کی بندرگاہ کا انتظام چین کے حوالے کرنا اور ایران، پاکستان گیس پائپ لائن معاہدہ ایک خوش آئند اور قابل تحسین امر ہے۔ اگرچہ خاصی تاخیر سے یہ فیصلے کئے گئے ہیں لیکن ان تاریخی اقدامات سے پاکستانی معیشت کو مستحکم بنانے میں بھرپور مدد ملے گی۔ پاکستانی حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ ان منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر عملدرآمد ممکن بنانا چاہئے۔ پاک چین معاہدے کی رو سے گوادر کی بندرگاہ پاکستان کی ملکیت رہے گی۔ چین کی کمپنی کے ذمہ انتظام و انصرام ہوگا اور منافع میں وہ حصہ دار ہوگی۔ گوادر کو معاشی و تذویراتی اہمیت کے پیش نظر 1964ء میں اسے متبادل بندرگاہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔2001ء میں عوامی جمہوریہ چین کے تعاون سے اس اہم منصوبے کی تعمیر کی طرف پیشرفت ممکن ہوسکی۔یہ اہم ترین منصوبہ چار دہائیوں تک ”کھٹائی“ میں پڑا رہا۔ گوادر دنیا بھر میں ”گہری بندرگاہ“ ”Deep sea port“ کے طور پر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ بندرگاہ خلیج فارس کے دہانے پر آبنائے ہرمزسے صرف چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اہم تجارتی روٹ پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان اور وسط ایشیاء کی ریاستوں کو اس سے بہت زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ وسط ایشیاء کے معدنی اور تیل کے ذخائر دنیا بھر کی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔ ان حالات میں گوادر بندرگاہ جغرافیائی محل و قوع کے اعتبار سے بہتر تجارتی گزرگاہ ثابت ہوسکتی ہے۔ عسکری لحاظ سے بھی گوادر بندرگاہ بے پناہ اہمیت کی حامل ہے۔ گوادر کا بحری مستقر آبنائے ہرمز سے لے کر خلیج فارس اور بحیرہ عرب تک نگرانی اور نگہبانی کے فرائض ادا کرسکتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کا انتظام چین کے حوالے کرنے سے بلاشبہ صوبہ بلوچستان اور پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ گہرے پانیوں کی یہ بندرگاہ پاک چین دوستی کی بہترین مثال ہے۔ گوادر پورٹ سے روس، چین کے علاوہ ترکی، ایران، بنگلہ دیش، افغانستان اور وسط ایشیا کی ریاستوں کو باہمی تجارت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ چین پاکستان کا مثالی دوست ہے۔ اس بندرگاہ کی تعمیر میں بھی اس کا کردار ناقابل فراموش ہے۔کئی چینی انجینئرز دہشت گردی کا نشانہ بنے لیکن چین نے دوستی نبھائی اور کام جاری رکھا۔ گوادر پورٹ کی تعمیر میں چین نے25کروڑ ڈالر کی امداد دی۔ چین پاکستان میں کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین پاکستان کی دوستی بھی مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایران پاکستان گیس معاہدہ بھی دوررس اثرات کا حامل ہوگا۔ بیرونی دباؤکو خاطر میں نہ لاکر پاکستان کے ملکی و قومی مفاد میں یہ معاہدہ امریکی حکومت کی آنکھوں میں”کھٹک“رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت ان دونوں تاریخی منصوبوں سے ”سٹپٹا“ گئے ہیں۔ امریکہ پاکستانی حکومت کو بار بار ”انتباہ“ کر رہا ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان پر کئی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ اب حکومت کو چاہئے کہ وہ امریکہ کے دباؤ اور دھمکیوں میں نہ آئے اور ان منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر عملدرآمد جاری رکھے۔ یہی پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔ اسی تناظر میں گوادر بندرگاہ چین اور پاکستان دونوں کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہو گی۔پاکستان کو باوقار، محفوظ اور خوشحال بنانے کے لئے جہاں گوادر پورٹ اور ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے پر ہنگامی بنیادوں پر پیشرفت کی ضرورت ہے وہاں تعلیمی نظام کو بھی مضبوط اور مستحکم بنانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔18ویں ترمیم میں صوبوں کو جو خودمختاری دی گئی ہے اس کے مطابق تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تعلیم جیسا اہم شعبہ مرکز کے سپرد ہی رہتا لیکن ملک عزیز میں قومی اداروں کی مخدوش اور بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے موجودہ حکومت اپنا بوجھ اتار رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں جو کمیشن بنایا گیا اس نے ایک بڑی ضخیم رپورٹ پیش کی کہ مسلم ممالک کے لوگوں کے دل و دماغ کو کیسے بدلا جائے اور کیسے ان پر قابو پایا جائے۔ اس حوالے سے بہت تفصیل سے لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ اس پر بہت سے ممالک میں بہ خوشی عمل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان امریکہ کے پلان میں کچھ زیادہ ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لئے یہاں یہ کام ہر سطح پر شروع ہو گیا ہے۔ تعلیم کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے مقام دیا گیا ہے۔ ملک عزیز کے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی صورتحال غیر اطمینان بخش بلکہ Alarmingہے۔ جس پر قوم کا درد رکھنے والے اور اس کے مستقبل کے لئے فکر مند تشویش میں مبتلا ہیں کہ آخر یہ حکومت نئی نسل کو کس منزل تک پہنچانا چاہتی ہے۔ پنجاب حکومت کو ان دنوں انگریز مائیکل باربر اور ایک امریکی ماہر تعلیم ریمنڈ کی خدمات حاصل ہیں۔ پنجاب کے نظام تعلیم میں جو تبدیلیاں لائی جارہی ہیں وہ انہی مشیروں کی ہدایات پر لائی جارہی ہیں جن کی ہر بات پر دینی اور قومی تقاضے پس پشت ڈال کر لبیک کہنا پنجاب حکومت کا شعار محسوس ہوتا ہے۔ حکومت پنجاب کے ایک فیصلے کے تحت پہلی جماعت سے انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم لازمی کر دیا گیا۔ اس سے قطع نظر کہ یہ تجویز کتنی قابل عمل ہے۔اس کے پیچھے جو ذہنیت کار فرما ہے وہ شدید مذمت کی مستحق ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پرائمری کے بعد ہی تعلیم ترک کرنے والوں کی شرح جو پہلے ہی تشویشناک تھی2012ء میں مزید تشویشناک ہو گئی۔ اس کا واضح سبب انگریزی تعلیم کا لازمی کیا جانا ہے۔ پنجاب حکومت کے31مئی 2012ء کے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے 500میٹر کے اندر واقع بچوں اور بچیوں کے اسکولوں کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ انہیں ماڈل پرائمری اسکول کا نام دیا گیا ہے۔ نیز اب جو بھی نیا پرائمری اسکول کھولا جائے گا اس میں مخلوط تعلیم دی جائے گی۔ مخلوط نظام تعلیم کے تباہ کن نتائج ہم ساری دنیا میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے گئے گزرے حال میں بھی جو بچی کھچی اقدار رہ گئی ہیں پنجاب حکومت ان کے بھی درپے ہے۔ اب طالبات کے تعلیمی اداروں میں مرد اساتذہ کی تقرریوں کا اور مردانہ کالجوں میں خواتین اساتذہ کے تقرر کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اسے ناگزیر مجبوری کے اقدام کے بجائے معمول کی بات بنایا گیا ہے اور کالجوں میں ہی نہیں اسکولوں میں بھی اس پر عمل کرنے کا منصوبہ ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ251 کے مطابق حکومت اردو زبان کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے رائج کرے۔ مخلوط نظام تعلیم کو ختم کرکے طالبات کے لئے الگ سے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جہاں وہ اپنے دائرہ کار میں بہتر انداز سے تعلیم و تربیت حاصل کر سکیں۔
آئندہ عام انتخابات کو شفاف اور آزادانہ بنانے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان، عدلیہ اور فوج کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ 42 سالوں میں 9 انتخابات ہوئے ہیں ان 9/انتخابات میں سے 7 انتخابات میں سنگین دھاندلی کے شواہد پائے گئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماضی میں ہمیشہ دھاندلی الیکشن ڈے پر نہیں ہوئی بلکہ قبل ازانتخابات ہوئی سرکاری فنڈز کا بیجا اور بے رحمانہ استعمال کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کئے گئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو قبل از انتخابات دھاندلی کے تمام راستوں کو بند کر دینا چاہئے۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ عوام اور الیکشن کمیشن کی نظریں الیکشن والے دن کی دھاندلی پر لگی رہتی تھیں اور سنگین دھاندلی الیکشن ڈے سے قبل ہی ہوتی رہی ہے۔ اس مرتبہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عوام کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ کہیں کوئی طالع آزما ماضی کی طرح ان انتخابات کو بھی چرا کر نہ لے جائے۔ انشاء اللہ عوام کی مرضی سے آئندہ حکومت بنے گی تو کوئی ملک و قوم کے مقدر سے نہیں کھیل سکے گا۔
تازہ ترین