• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں مسلسل بجلی جانے کا ایک سلسلہ پچھلے پانچ سالوں میں شروع ہوا۔ کبھی لاہور کی روشنیاں گم ہوئیں، کبھی فیصل آباد میں بلیک آؤٹ ہو گیا، کبھی کراچی اندھیرے میں ڈوب گیا، کبھی اسلام آباد تاریک ہو گیا مگر پاکستان کے کچھ علاقے ایسے تھے جہاں بجلی جانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہاں بھی بجلی چلی گئی۔ یک لخت پورا ملک ایک جیسا ہو گیا۔ کالا سیاہ، تیرگی سے بھرا ہوا، نیویارک کی تاریخ میں لکھا ہوا ہے ”وہ ایک رات جب نیویارک میں بجلی چلی گئی“۔ یہ 13 جولائی 1977ء کی گرم رات تھی۔ یک دم شہر اندھا ہو گیا تھا۔ سماعتیں شیشوں کے ٹوٹنے اور خطرے کے الارم بجنے کی آوازوں سے بھر گئی تھیں۔دکانیں لوٹ لی گئی تھیں، عصمتیں پامال کر دی گئی تھیں، بلڈنگوں کو آگ لگا دی گئی تھی، پولیس بے یار و مدگار ہو گئی تھی۔ لوٹ مار اور تشدد کا بازار گرم ہو گیا تھا۔ نقصان کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ ایک کار ڈیلر کی دکان سے جو کم سے کم گاڑیاں چرائی گئیں ان کی تعداد پچاس تھی۔ پولیس نے 3776 لوگ گرفتار کئے مگر ہزاروں ایسے بھی تھے جو گرفتار نہ ہو سکے۔ شہر میں آگ لگائی گئی جگہوں کی تعداد 1037 تھی۔ یہ صرف امریکہ کے ایک شہر کا قصہ ہے جہاں ایک رات بجلی چلی گئی تھی۔ دوسری طرف ہم ہیں جہاں روز رات کو کسی نہ کسی شہر کی بجلی چلی جاتی ہے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہم بحیثیت قوم کتنے اچھے لوگ ہیں۔ ہمیں کرپٹ کہنے والوں نے اپنے دامن میں کبھی نہیں جھانکا۔ ہم پاکستانی کرپٹ نہیں، کرپٹ صرف اشرافیہ ہے اور ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو باقاعدہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ آدھے امریکہ میں کئی بار بجلی جا چکی ہے بلکہ ایک مرتبہ تو امریکہ کے پورے نارتھ ایسٹ کے علاقے کے ساتھ کینیڈا کے کچھ حصے بھی اس بریک ڈاؤن کی زد میں آ گئے تھے یعنی سارے ملک سے بجلی چلے جانا کوئی عجیب و غریب بات نہیں۔ عجیب و غریب بات کسی ایک شہر سے کچھ دیر کیلئے بجلی کا چلے جانا ہے جسے لوڈشیڈنگ کہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بہت عرصہ پہلے یہ لوڈشیڈنگ ختم ہو چکی ہوتی اگر صدر زرداری اپنے اقتدار کے پہلے سال ہی گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کر دیتے اور ایران کے ساتھ گیس کی پائپ لائن کا معاہدہ کر لیتے تو اب تک پاکستان کی گلیوں میں اندھیرے منہ چھپاتے پھرتے۔ ہاں میں جانتا ہوں وہ پانچ سال اس لئے انتظار کرتے رہے کہ اتنے بڑے فیصلے انہیں اقتدار سے بھی محروم کر سکتے تھے لیکن اس سچائی سے بھی انکار ممکن نہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ پاکستان میں لوڈشیڈنگ سے پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اگرچہ اس کا الزام وفاقی حکومت پر ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی حد تک اس کے قصور وار خود پنجاب کے حکمران ہیں۔ پنجاب کے حصے کی ساڑھے تین سو میگاواٹ بجلی پچھلے پانچ سال سے کے ای ایس سی کو فراہم کی جا رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے اسی سال مشترکہ مفادات کی کونسل میں پہلی بار یہ سوال اٹھایا ہے جس میں کونسل میں باقاعدہ طے پایا ہے کہ کے ای ایس سی کو جو بجلی ملتی ہے اس میں سے 350 میگاواٹ بجلی کاٹ کر واپس پنجاب کو دی جائے مگر ابھی پنجاب حکومت نے اس پر عملدرآمد نہیں کرایا،کیوں؟
قصہ یہ ہے کہ کے ای ایس سی کے مالکان پیداواری لاگت کم رکھنے کیلئے اپنے بعض تھرمل یونٹ نہیں چلا رہے کیونکہ فرنس آئل مہنگا ہے۔ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے نیشنل گرڈ سے پنجاب کی بجلی کے 350 میگاواٹ لے جاتے ہیں۔ یقینا ان کا اثر و رسوخ صرف وفاقی حکومت ہی میں نہیں حکومتِ پنجاب میں بھی ہے۔ کوئی سبب تو ہے کہ اتنے عرصہ سے حکومتِ پنجاب خاموش ہے۔ایک بات اور بھی بڑی اہم ہے کہ اگر حکومت پنجاب لاہور میں اربوں روپے سے بس سروس شروع کر سکتی تھی تو کیا بجلی پیدا کرنے کا یونٹ نہیں لگا سکتی تھی۔ کیا اس سلسلے میں حکومتِ پنجاب پر کسی نے پابندی لگا رکھی تھی؟ حکومت پنجاب نے یہ کام صرف اس لئے نہیں کیا کہ اس کے خیال میں اس سے نون لیگ کے ووٹ میں اضافہ یا کمی نہیں ہو سکتی کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ بجلی کا محکمہ وفاقی حکومت کے پاس ہے لہٰذا لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی ہے۔
جی ہاں۔ اس جرم کی سزاوار پیپلز پارٹی تو ہے ہی مگر نون لیگ بھی اپنا دامن نہیں بچا سکتی۔ شریف فیملی خود بھی کاروباری نقطہٴ نظر سے ہی سہی بجلی پیدا کرنے کا کوئی یونٹ پنجاب میں لگا لیتی تو وہ مالی اور سیاسی دونوں فوائد حاصل کر سکتی تھی۔ چلیں اب لگا دے،کم از کم اعلان تو کر دے۔ نون لیگ نے صرف یہی ایک الیکشن تو نہیں لڑنا۔ روشنی کی اس پیداوار سے اس بار نہ سہی اگلی بار تو ووٹ مل جائیں گے اور صرف اعلان سے بھی اس کے اُس ووٹ بنک میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے جس کے بارے میں نون لیگ کو بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ابھی دس پندرہ دنوں بعد پتہ چل جائے گا۔ لوگ پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ نون لیگ سے متنفر ہیں۔پاکستان کے لوگ مثبت سوچ رکھنے والے لوگ ہیں۔ وہ چور لٹیرے نہیں، بدمعاش نہیں۔ وہ دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہیں۔ وہ کسی کا حق نہیں مارتے، کسی کی جیب نہیں کاٹتے۔ وہ ذرا ذرا سے مفاد کیلئے بڑے بڑے جھوٹ نہیں بولتے۔ وہ کرپٹ نہیں ہیں،کرپٹ اہل اقتدار ہیں اور عوام یہ بات جان چکے ہیں کہ جب تک ان کرپٹ، دوغلے، چوروں اور لٹیروں سے ملک کو آزاد نہیں کرایا جائے گا اس وقت تک ملک اسی طرح اندھیروں میں پرورش پاتا رہے گا۔ گلیاں تاریک رہیں گی، شہر سنسان رہیں گے اور پھر ڈاکٹر طاہر القادری جو شہر شہر جا کر ان چوروں اور لٹیروں کے چہروں سے نقاب نوچ رہے ہیں، جو کسانوں کو بتا رہے ہیں کہ یہ زمین جس میں تم ہل چلاتے ہو اسلام کی رُو سے اس کے مالک تم ہو، جاگیردار نہیں۔ جو شعور وہ اس وقت عوام کو دے رہے ہیں یقینا وہ بہت دور رس نتائج کا حامل ہو گا۔ آخر میں عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ مطمئن ہو کر نہ بیٹھیں کہ ان کا کام جاری ہے۔
شب کی دیوار گرانا کوئی آساں تو نہیں
تھک نہ جائے کہیں، آ وقت کی امداد کریں
تازہ ترین