• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسروں کی بات انہماک، توجہ اور تحمل سے سنتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی یکتا ہیں، موثر، مدلل جواب دینے کا ہنر انہیں آتا ہے، اس بناء پر امریکی حکام کو وہ قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کلیدی کردار قیام امن کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے اور طالبان سے رابطوں میں مددگار ثابت ہو گا۔
اتوار کا دن وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر میں گزرا، دن بھر کی مشقت اور حسن سماعت کا ثمر چند خبریں اور ایک عمومی تاثر ہے، لیکن سب سے پہلے اس پروپیگنڈے کی نفی کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران منتخب حکومتوں نے محروم و مفلوک الحال عوام کو امن، روزگار، معاشی آسودگی اور تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگائی مگر برا ہو بعض نادیدہ قوتوں کا جنہوں نے جمہوری اور سیاسی قوتوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھے اور اب وہ ملک میں تین سالہ بنگلہ دیش ماڈل لانے کے در پے ہیں۔
اگر فوجی قیادت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو زمینی حقائق سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ پاک فوج نے سول حکومت کو پانچ سال پورے کرنے میں مدد دی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مردانہ وار کردار ادا کیا، دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے اینٹی ٹیررسٹ قوانین کی تدوین، قانون شہادت میں تبدیلی، انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کے نظام کو بہتر بنانے اور اندرونی بے چینی سے نمٹنے کے لئے تجاویز دیں، مگر مجال ہے کہ حکمرانوں اور پارلیمنٹ نے قانون سازی کی زحمت گوارا کی ہو یا پولیس و انتظامیہ کی کارگزاری بہتر بنانے کے لئے ایک قدم اٹھایا ہو، ارکان پارلیمنٹ البتہ دیگرکاموں میں سرگرمی بہت دکھاتے ہیں۔
حکومت نے حکم دیا تو فوج نے سوات اور قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع کر دیا، کامیابی ملی۔ اب فوج یہ واگزار علاقے پولیس اور انتظامیہ کے سپرد کرنے کی منتظر ہے مگر منتخب حکمران یہ کام فوج کے سپرد کرکے مطمئن ہیں کہ جٹ جانے یا بِجو جانے، کوئی پوچھے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو بے اختیار ہیں حالانکہ یہ بے بس تھے تو پانچ سال قبل حکومت چھوڑ کر عوام کو اعتماد میں لیتے۔
بلوچستان میں پراکسی وار سے نمٹنا حکومت کی ذمہ داری تھی جو انتخابی عمل کے ذریعے وجود میں آئی، اعلیٰ ترین فوجی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گورنر اور وزیراعلیٰ کی نامزدگی میں ان کی Input شامل نہ تھی۔ ریکوڈک کے معاملات سے لے کر ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ اور ترقیاتی فنڈز کی خورد برد تک عوامی نمائندے آزاد تھے۔ فوج کا ایک سپاہی کسی آپریشن میں ملوث نہیں جبکہ ایف سی بھی آئین کے مطابق صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے مگر دہشت گردی، تخریب کاری اور مذہبی فرقہ واریت کو روکنے کے لئے اس صوبائی حکومت نے کبھی سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ کبھی صوبائی انتظامیہ یا وفاقی حکومت نے فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لئے طلب کیا ہے۔
وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ نے ہزارہ برادری کو ٹارگٹڈ آپریشن کی نوید سنائی جو فوج کرے گی مگر آج تک فوجی قیادت کور کمانڈر اور آرمی چیف کو اس حوالے سے کسی قسم کی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔ عوام کو تاثر یہی دیا گیا کہ فوج ٹارگٹڈ آپریشن میں مصروف ہے۔
اے این پی کی طرف سے اے پی سی طلب کرنے اور طالبان سے مذاکرات پر آمادگی کو فوجی قیادت کی تائید و حمایت حاصل نہیں وہ اس حوالے سے مکمل قومی اتفاق رائے چاہتی ہے اور آئین کو ماننے، قانون کی پابندی اور رٹ آف گورنمنٹ پر مشتمل تین پیشگی شرائط قبول کرنے والوں سے مذاکرات کے حق میں ہے مگر مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے مذاکرات کی حمایت کے ذریعے آپریشن میں مصروف نوجوانوں کو کنفیوژ کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ہر شخص اور جماعت کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور اپنی ناکامی کا ملبہ دوسروں پر نہیں ڈالنا چاہئے مگر سیاستدان صرف پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کا کارڈ صرف انتخابی جلسوں کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے اور انتخابات کے دوران عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے کھیلا جا رہا ہے۔ بعض طالبان گروہوں اور کالعدم تنظیموں کی فوج یا آئی ایس آئی کی طرف سے سرپرستی محض افسانہ ہے جس کا ثبوت جگہ جگہ فوجی آپریشن اور شہادتیں ہیں۔
اعلیٰ فوجی قیادت اس بات پر مطمئن ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے موثر کردار کا ادراک امریکہ اور نیٹو نے کر لیا ہے، امریکی عہدیداروں کا لب و لہجہ اور انداز فکر پاکستان کے حوالے سے بہت بہتر ہے اور افغان فوج، طالبان اور 2014ء کے انتخابات کے حوالے سے ہمارے نکتہ نظر کو قبول کر لیا گیا ہے۔ امریکیوں کو احساس ہو گیا ہے کہ برطانیہ و سوویت یونین کی طرح کوئی اور بھی افغانستان کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اس لئے پرامن اور مستحکم افغانستان عالمی برادری اور ہمسایوں کی ضرورت ہے۔ طالبان سے امریکہ کے مذاکرات کے بعد پاکستان میں مقامی طالبان سے مذاکرات کا عمل قومی ضرورت ہے مگر وقت کا تعین قومی قیادت کو اتفاق رائے سے کرنا چاہئے اور نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہئے۔
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی کہ موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نومبر 2013ء میں اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے باعزت ریٹائرمنٹ کے خواہش مند ہیں، پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کی تکمیل اور آزادانہ شفاف انتخابات کے ذریعے انتقال اقتدار ان کا خواب تھا جو اگلے دو اڑہائی ماہ میں پورا ہو رہا ہے۔ منفی پروپیگنڈے کے باوجود وہ اپنے عزم پر قائم رہے اور اب بھی الیکشن کے دن دھاندلی کے علاوہ رن آف الیکشن میں دھاندلی کی روک تھام کے لئے الیکشن کمیشن کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلا چکے ہیں، اس لئے امید یہی ہے کہ دیانتدار چیف الیکشن کمشنر وہ سب کچھ کر گزریں گے جوآئین کا تقاضا ہے اور بدکرداروں کو روکنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
چڑیوں، ہدہد اور ابابیلوں کی موجودگی میں ہر سوال کا مدلل، موثر اور دو ٹوک جواب ملنے کے بعد یہ کنفیوژن تو دور ہوا کہ کوئی نادیدہ قوت بروقت انتخاب نہیں چاہتی مگر یہ تاثر ضرور ملا کہ قومی معیشت کا زوال ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہے اور سیاسی و فوجی قیادت بہت سے معاملات میں Same page پر نہیں۔ ایک تو یہ فکر ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء، اہم امور پر اتفاق رائے کی کمی اور انتخابی عمل کے دوران دہشت گردی کی صورت میں ملک کا کیا بنے گا؟ جبکہ دوسرے صرف اگلے تین ماہ یا الیکشن کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اپنی ہر ناکامی کا ملبہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر ڈال کر عوام کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔
شام کو اسلام آباد کلب میں جنرل (ر) شاہد عزیز سے معلومات افزاء ملاقات رہی اور انہوں نے اپنی کتاب کا شان نزول بیان کیا۔ وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر میں میجر جنرل عاصم باجوہ اور میجر شفیق نے میزبانی کا حق ادا کیا سب کا شکریہ!۔
تازہ ترین