• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سردیاں اپنا جوبن دکھا کر اب واپس لوٹنے کو ہیں۔ خزاں کی وجہ سے ٹنڈ منڈ درختوں اور پودوں کی کو نپلیں پھوٹنا شروع ہوچکی ہیں۔ چند ہفتوں بعد بھاپ اڑاتی چائے، کافی اور گرما گرم پکوڑوں کی جگہ ٹھنڈے مشروبات لے لیں گے۔ خستہ مونگ پھلی ، گرم آنڈے(انڈے) کی آوازوں کی جگہ ٹھنڈا ٹھار پیوٴ کی آوازیں گونجنے لگیں گی۔ آپ کراچی، پشاور، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد ، ڈی جی خان بلکہ کسی بھی شہر میں چلے جائیں گرمیوں میں ریڑھی یا کھوکھوں پر مشروبات والے بیچنے کیلئے خود آواز نہیں لگاتے بلکہ انہوں نے ایک آواز ریکارڈ کرکے ٹیپ ریکارڈر میں لگا رکھی ہوتی ہے۔ ٹھنڈا ٹھار پیوٴ ۔ 10 روپے دا گلاس پیوٴ ۔ ایسی ریڑھیوں پر یہ بے ہنگم آواز تواتر سے آتی ہے لیکن وہاں گاہکوں کی وہ چہل پہل نہیں ہوتی جو کسی دوسری مشروبات کی خاموش دکان پر ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف شور ہوتا ہے تو دوسری طرف کوالٹی ہوتی ہے۔
الیکشن کی آمد کے بعد ملک میں بھی ٹھنڈا ٹھار پیوٴ جیسی آوازیں گونجنے لگی ہیں۔ انقلاب انقلاب اور تبدیلی کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں۔ برج الٹنے اورکرپشن کے خاتمے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوچ، سمجھ بوجھ ، دلائل اور کارکردگی کی جگہ چیخنے اور فنِ خطابت کے ذریعے لوگوں کو قائل کرنے کی حکمت عملی شروع ہوچکی ہے۔ کیونکہ دلائل، منطق اور کارکردگی کے ذریعے بھی عوام کو قائل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ نہ صرف ایک مشکل کام ہے بلکہ اس کے لیے دلیری اور ایمانداری کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والے ٹاک شوز دیکھ لیں۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد آپ کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے کنفیوژ ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اگر کوئی کسی کو کرپٹ کہتا ہے تو دوسرا اس کو اور اسکے خاندان کو کرپٹ کہہ دیتا ہے۔ اگر ایک کسی خراب پالیسی اور ناقص حکمت عملی کا طعنہ دیتا ہے تو دوسرا بڑی صفائی سے اسے کسی دوسرے کے کھاتے میں ڈال کر خود ہاتھ جھاڑ کر صاف نکل جاتا ہے۔ غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے اپنی ناقص حکمت عملی یا خراب پالیسی یا بری طرز حکومت کا اعتراف کرنے کی بجائے ہر کوئی بس ”ٹھنڈا ٹھار پیوٴ“ کے ذریعے کارکردگی دکھانے میں مصروف ہے۔ سچ اور منطقی دلائل ناپید ہیں۔ اب دیکھیں ناں کچھ ہی عرصہ قبل مولانا طاہر القادری صاحب ” سیاست نہیں ریاست بچاوٴ“ کا نعرہ لگا کر کوڈی کوڈی(کبڈی کبڈی) کرتے ایسے میدان میں اترے کہ ایک مرتبہ ہر کوئی نہ صرف چونک گیا بلکہ اُنکے الفاظ کے چناوٴ اور جوش خطابت نے عوام کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کردیا کہ ہمارے یہی مسائل ہیں جو قادری صاحب بیان فرمارہے ہیں اور اب یہ حل ہونے کو ہیں۔ لیکن اب اگر قادری صاحب کی گفتگو سنیں اور انکے بیانات ملاحظہ فرمائیں تو ”سیاست نہیں ریاست بچاوٴ“ کے الفاظ دور دور نظر نہیں آئیں گے۔ قادری صاحب ، انقلاب، کرپشن اور ناانصافی کی بات کرتے تھے، وہ ہم سب کے مشترکہ مسائل کی بات کررہے تھے ۔ لیکن انہوں نے ان مسائل کا منطقی حل بتانے کی بجائے اپنی ذات کو اجاگر کرلیا اور یہ تاثر ملا کہ وہ سسٹم کو ختم کردینے کا درس دے رہے ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی دوبارہ تشکیل کا مطالبہ کیا اور اگر ایسا کربھی دیا جائے تو نئے آنے والے لوگوں کی کارکردگی کی ضمانت کون دے گا اور شاید نئے آنے والے پر کوئی دوسرا جوش خطابت کے ذریعے اسکی اہلیت کو مشکوک قرار دے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے قادری صاحب کی پٹیشن کو رد کردیا ہے۔ جو یقینا ایک درست قدم ہے۔ ملک میں نہ صرف نظام چلتا رہنا چاہیئے بلکہ ہمارے سیاست دانوں کو بھی چاہیئے کہ وہ رٹے ہوئے نعروں کی بجائے دلائل اور منطقی حل کے ذریعے عوام کو قائل کریں، انہیں حقائق سے آگاہ کریں۔ جب عوام حقائق سے آگاہ ہونگے تو پھر وہ جوشِ خطابت اور شوروغوغا کے ذریعے متاثر کرنے والوں کے آلہ کار نہیں بنیں گے اور نہ ہی عوام نظام سے تنگ آئیں گے اور وہ سیاست دان جو موقع ملنے پر ڈیلیور کرتے ہیں انہیں پھر خالی یہ آواز کہ ” ٹھنڈا ٹھار پیوٴ“ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی بلکہ انکی کارکردگی ہی انکے دلائل ہونگے، انکے چیخے بغیر بات کہہ دینا کافی ہوگااور انکی بات دل میں گھر کرجائے گی۔ کیونکہ زمانہ تبدیل ہورہا ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین