• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کفارِ مکہ کی مدینہ منورہ پر پہلی چڑھائی (قسط نمبر 4)

ایک صبح ابوجہل مکّے سے روانہ ہوا۔ ابولہب کے سوا تمام قبائلی سردار، تیرہ سو جنگ جُو، چھے سو زرہیں، دو سو گھوڑے، بہت سے اونٹ، کھانے پینے کا وافر سامان، ناچ گانے والیاں اور شراب کے ڈرم اُس کے ساتھ تھے۔ سرداروں میں عتبہ بن ربیعہ، بھائی شبیہ، بیٹا ولید، اُمیّہ بن خلف، نوفل بن خوید، ابوالجنتری بن ہشام، زمعہ بن اسود، حکیم بن حزام، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث، منبہ بن حجاج، اخنس بن شریق، عقیل بن ابی طالب، عبّاس بن عبدالمطلب وغیرہ لشکر میں شامل تھے۔ 

دوسری طرف، ابو سفیان نہایت خوف کے عالم میں اُس تجارتی قافلے کو لے کر آگے بڑھ رہا تھا، جس میں اہلِ مکّہ کا کُل سرمایہ لگا ہوا تھا۔ ابوسفیان بدر پہنچا، تو وہاں ابھی تک قریش کا لشکر نہیں پہنچا تھا۔ اُس نے مجدی بن عمرو سے معلوم کیا کہ’’(حضرت) محمّد(ﷺ) کے جاسوس تو کہیں نظر نہیں آئے؟‘‘ مجدی نے کہا’’ کوئی خلافِ معمول بات تو نہیں دیکھی، سوائے اُن دو سواروں کے، جنہوں نے اس ٹیلے کے پاس اپنے اونٹ بٹھائے تھے۔‘‘ ابوسفیان جلدی سے اُس جگہ پہنچا اور اونٹوں کی چند مینگنیاں اُٹھا کر توڑیں، تو اُن میں کھجور کی گٹھلی نکلی، جسے دیکھ کر اُس کے اوسان خطا ہوگئے۔ گھبرا کر بولا’’ یہ تو مدینے کا چارہ ہے اور یہاں، وہاں کے جاسوس موجود ہیں۔‘‘ پھر وہ بدر کی بائیں جانب مغرب کی سمت مُڑ کر قافلے کو سمندر کے کنارے لے آیا اور کنارے کنارے چلتا صحیح سلامت مکّہ پہنچ گیا۔

بعدازاں، ابوسفیان نے قیس بن امری کو فوری طور پر مدینے کی جانب روانہ کیا تاکہ قریش کے لشکر کو قافلے کے خیر خیریت سے پہنچنے کی اطلاع دے۔ ابوجہل کو پیغام ملا، تو وہ آگ بگولا ہوگیا۔ اُس نے مدینے پر حملے کا منصوبہ خفیہ رکھتے ہوئے اعلان کیا’’ ہم سب یہاں سے بدر جائیں گے، وہاں تین دن جشن منائیں گے، اپنی طاقت اور شان شوکت کا مظاہرہ کریں گے تاکہ ہمارا رُعب و دَبدبہ مزید مستحکم ہو جائے۔‘‘ قریش کے لوگ اور کچھ سردار واپس جانے کے لیے تیار تھے، لیکن ابوجہل کی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے خاموش تھے۔ 

ایک سردار، اخنس بن شریق نے مشورہ دیا کہ’’ اب آگے جانا فضول ہے۔ ہمارا مال و اسباب بخیریت پہنچ چُکا ہے۔ بہتر ہے، واپس مکّہ چلو۔‘‘ ابوجہل کے انکار پر اخنس ،بنی زہرہ کے تین سو افراد لے کر وہاں سے پلٹ گیا۔ بنی عدی بن کعب بھی واپس پلٹ گیا۔ بنو ہاشم کے سردار، عبّاس بن عبدالمطلب بھی اپنے لشکر کے ساتھ واپس جانا چاہتے تھے، لیکن ابوجہل نے بنو ہاشم کو واپس جانے کی اجازت نہیں دی۔ قریش کے لشکر نے اپنا سفر جاری رکھا، یہاں تک کہ وہ وادیٔ بدر کے جنوب میں ایک اُونچے پہاڑی ٹیلے کے دامن میں خیمہ زن ہوگئے۔

صحابہ کرامؓ کا بے مثال جذبہ

رسول اللہ ﷺ کو قریش کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر مدینے کی جانب بڑھنے کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔لہٰذا، مسلمانوں کی بقاء و سلامتی کے لیے اُس لشکر کو مدینے کے باہر ہی روکنا ناگزیر تھا۔ مدینے کے یہود و نصاریٰ، مشرکین و منافقین، کچھ پس پردہ اور کچھ اعلانیہ ،کفّارِ مکّہ سے رابطے میں تھے۔ وہ اس بات کے شدّت سے منتظر تھے کہ اہلِ مکّہ پوری قوّت کے ساتھ مدینے پر حملہ کریں، تو وہ شہر کے اندر اُن کی مدد کریں۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ کرامؓ سے مشاورت کے لیے خصوصی اجلاس بلایا۔ سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رسول اللہﷺ کے ہر فیصلے پر سرِ تسلیمِ خم کرتے ہوئے اپنی جاں نثاری کا ثبوت دیا۔ 

حضرت عُمر فاروقؓ نے پُرجوش تقریر کرتے ہوئے سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کی تائید کی۔ پھر حضرت مقدادؓ بن عمرو البہرانی نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ کی قسم! ہم آپؐ سے وہ بات نہیں کہیں گے، جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی، حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے کہی تھی کہ’’ تم اور تمہارا رَبّ جا کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں‘‘(سورۃ المائدہ 24)۔قسم اُس ذات کی، جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر آپؐ ہمیں برک الغماء (ایک مقام کا نام) تک لے چلیں، تو ہم راستے والوں سے جنگ کرتے آپﷺ کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے۔‘‘آپؐ نے اُن کے لیے دُعائے خیر فرمائی۔ 

یہ تینوں مہاجرین میں سے تھے۔ آپؐ نے مزید فرمایا’’لوگو مجھے مشورہ دو۔‘‘ انصار کے رہنما، حضرت سعدؓ بن معاذ نے عرض کی’’ اے اللہ کے رسولﷺ! بخدا آپؐ کا اشارہ ہماری جانب ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ ہاں۔‘‘ اِس پر اُنہوں نے عرض کی’’ اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ نے جو ارادہ فرمایا ہے، اُس پر عمل فرمایئے۔ اُس ذات کی قسم! جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم فرمائیں گے، تو ہم سب کود پڑیں گے۔ 

ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ آپﷺ ہمیں ساتھ لے کر دُشمن سے ٹکرا جائیں، ہم جواں مَردی اور بہادری سے لڑیں گے اور اللہ آپؐ کو ہمارے وہ جوہر دِکھلائے گا، جس سے آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔‘‘ حضرت سعدؓ کی پُرجوش گفتگو نے حاضرین پر سحر طاری کر دیا۔ حضورﷺ نے سب کو دُعائیں دیں اور کُوچ کا حکم فرمایا۔

اسلامی لشکر وادیٔ بدر میں

بدر مدینے سے 80 میل کی مسافت پر واقع ہے۔ رسول اللہﷺ نے 12 رمضان المبارک، 2 ہجری، 6 مارچ 624ء، بروز اتوار 313 جاں نثاروں کے ساتھ بدر کی جانب کُوچ فرمایا۔ اُن میں82 مہاجرینِ قریش تھے اور 231 مدینے کے انصار (61 قبیلۂ اوس اور 170 قبیلۂ خزرج) تھے۔بے سرو سامانی کا عالم تھا، پورے لشکر میں صرف 2 گھوڑے تھے، جن پر حضرت زبیرؓ بن عوام اور حضرت مقدادؓ بن اسود سوار تھے۔ صرف 70 اونٹ تھے، ہر اونٹ پر تین سے چار صحابیؓ سوار تھے۔ خود تاج دارِ مدینہ ؐکے اونٹ پر بھی حضرت علیؓ اور حضرت مرثدؓساتھ تھے۔ بعض حضرات پیدل بھی تھے، جو اپنی باری آنے پر اونٹ پر بیٹھ جاتے۔ 

سامانِ حرب کا یہ عالم تھا کہ اگر تلوار تھی تو نیزہ اور کمان غائب، نیزہ تھا تو تلوار نہ تھی(رحیق المختوم)۔ مدینے کا انتظام اور نماز کی امامت پہلے حضرت عمرو ابنِ اُمِ مکتومؓ کو سونپی گئی، لیکن جب آپؐ روحاء پہنچے، تو آپؐ نے حضرت ابولبابہؓ کو مدینے کا منتظم بنا کر بھیج دیا۔ لشکر کی تنظیم اِس طرح کی گئی کہ ایک جیش مہاجرین کا بنایا گیا اور ایک انصار کا۔ مہاجرین کا عَلم حضرت علیؓ کو دیا گیا اور انصار کا عَلم حضرت سعدؓ بن معاذ کو۔ جنرل کمان کے پرچم کا رنگ سفید تھا، جس کے عَلم بردار حضرت مصعب ؓبن عمیر تھے۔ میمنہ کے افسر حضرت زبیرؓ بن عوام اور میسرہ کے افسر، حضرت مقداد بن اسودؓ مقرّر کیے گئے۔ ساقہ کی کمان حضرت قیسؓ کے حوالے کی گئی اور سپہ سالارِ اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل کمان، رسول اللہﷺ نے خود سنبھالی(رحیق المختوم)۔ 

اس جنگ کے لیے رسول اللہﷺ نے نشانِ شناخت بھی مقرّر فرمائے۔ مہاجرین کا نشانِ شناخت’’یابنی عبدالرحمٰن‘‘، قبیلہ خزرج کا’’یابنی عبداللہ‘‘، قبیلہ اوس کا’’یابنی عبیداللہ‘‘ جب کہ پورے اسلامی لشکر کا نشانِ شناخت’’یامنصور امت‘‘تھا(طبقات ابنِ سعد)۔ تین صحابی حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت سعدؓ کو حالات کا پتا لگانے کے لیے آگے کی جانب روانہ کیا گیا۔ یہ تینوں بدر کے چشموں کے پاس پہنچے، تو دیکھا کہ دو مُشرک پانی بھر رہے ہیں۔ یہ اُن دونوں کو گرفتار کر کے آنحضرتؐ کے پاس لے آئے۔ اُنہوں نے پوچھنے پر بتایا کہ’’ وہ قریش کے سقّے ہیں اور وادی کے آخری ٹیلے کے عقب میں قریش کی فوج کا قیام ہے۔‘‘ آپؐ نے فوج کی تعداد پوچھی، تو اُنہوں نے کہا کہ’’ وہ تو بہت ہیں۔‘‘ حضورﷺ نے فرمایا’’ اچھا یہ بتائو کہ روزانہ کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا’’ نو یا دس۔‘‘ اس پر آپؐ نے فرمایا’’ اُن کی تعداد ایک ہزار اور نوسو کے درمیان ہے۔‘‘ پھر اُن سے قریش کے سرداروں کے بارے میں دریافت فرمایا، تو اُنہوں نے سرداروں کے نام گنوا دیئے۔ رسول اللہﷺ نے صحابہؓ کی جانب دیکھتے ہوئے فرمایا ’’مکّہ نے اپنے تمام جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے پاس لا کر ڈال دیا ہے۔‘‘حضرت حبابؓ جنگوں کا تجربہ رکھتے تھے۔ اُنہوں نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ! اگر آپؐ مناسب سمجھیں، تو ہم اور آگے جا کر قریش کے قریب ترین چشمے پر پڑائو کرتے ہیں۔ 

ہم وہاں پر حوض بنا لیں گے اور باقی سب چشموں کو بند کر دیں گے۔‘‘ ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ حضرت جبرائیلؑ تشریف لے آئے اور عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ! حبابؓ کی رائے بہتر ہے۔‘‘ حضورﷺ فوراً آگے جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بدر کی مٹّی ریتلی تھی، جس کے سبب قدم بڑھانے میں مشکل ہورہی تھی۔ اللہ جل شانہ کو اپنے محبوبؐ کے ان جاں نثاروں پر پیار آ گیا۔ بادلوں کو حکم فرمایا، تو وہ برس پڑے۔ اس سے اسلامی لشکر کی طرف کی زمین سخت اور آرام دہ، جب کہ مشرکین کی جانب اس قدر دلدل ہوگئی کہ چلنا پِھرنا مشکل ہوگیا۔ مسلمان نہایت اطمینان کے ساتھ چلتے ہوئے شب کے دوسرے پہر سب سے آخری چشمے پر پہنچ کر قیام پذیر ہوگئے۔

اپنے ہی جگر گوشے…

بدر کے نیلے شفّاف آسمان نے ایسا حیرت انگیز معرکہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا کہ جس میں دونوں جانب اپنے ہی جگر کے ٹکڑے آمنے سامنے تھے۔ ایک جانب حضرت صدیقِ اکبرؓ ہیں، تو سامنے سگا بیٹا، عبدالرحمٰن ہے۔ ایک طرف حضرت عُمر فاروقؓ ہیں، تو سامنےحقیقی ماموں، عاص بن ہشام۔ اِدھر سیّدنا علی المرتضیٰؓ ہیں، تو سامنے ماں جایا، عقیل۔ اہلِ ایمان میں حضرت ابوحذیفہؓ ہیں، تو صفِ مخالف میں باپ، عتبہ بن ربیعہ۔ اہلِ حق کے سپہ سالارِ اعظم حضور نبی کریمﷺ ہیں، تو کفّار کی صفوں میں چچا، عبّاس بن عبدالمطلب ہیں اور جگر گوشۂ رسولؐ، سیّدہ زینبؓ کے شوہر، ابوالعاص مشرکین کے ہم نوا ہیں۔ یعنی اصل رشتہ، دینِ اسلام کا رشتہ تھا، ایک ایسا رشتہ ،جس میں بندھنے والے ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوگئے کہ پھر خونی رشتے تک اجنبی لگنے لگے۔ 

مسلمان لشکر جب چشمے کے ساتھ پڑائو ڈال چُکا، تو صحابہ کرامؓ نے حضرت سعدؓ بن معاذ کی تجویز پر میدانِ جنگ کے شمال مشرق میں ایک اُونچے ٹیلے پر آنحضرتؐ کے لیے کھجور کی لکڑیوں سے ایک سائبان تیار کیا، جہاں سے میدانِ جنگ کے مناظر صاف نظر آتے تھے۔ گویا یہ مسلمانوں کا جنگی ہیڈکوارٹر تھا۔ اس جگہ کی نگرانی کے لیے حضرت سعدؓ بن معاذ کی قیادت میں انصاری نوجوانوں کا دستہ مقرّر کیا گیا۔ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرتؐ میدانِ جنگ میں تشریف لے گئے، جہاں آپؐ نے لشکر کی ترتیب فرمائی۔ ہر ایک کو اُس کے کھڑے ہونے کی جگہ سے آگاہ فرمایا (ترمذی) پھر آپؐ نے ہاتھ کے اشارے سے مشرک سرداروں کے قتل کی جگہوں کی نشان دہی فرمائی (صحیح مسلم)۔( اور دُوسرے دن جنگ کے بعد صحابہؓ نے دیکھا کہ حضورﷺ نے جس سردار کے قتل کی جو جگہ بتائی تھی، اُس کی لاش اُسی جگہ پڑی تھی) اس کے بعد آپؐ نے سب کو آرام کی تلقین فرمائی، چناں چہ سب اطمینان و سُکون کے ساتھ لیٹ گئے اور جلد ہی اُن پر نیند طاری ہوگئی۔ 

رسول اللہﷺ نے بھی میدانِ جنگ ہی میں ایک درخت کے نیچے رات گزاری۔قرآنِ کریم کی آٹھویں سورہ، سورۃ الانفال میں غزوۂ بدر کا تفصیلاً ذکر ہے۔ جس میں سب پر نیند غالب آ کر پریشانی اور تکان کے دُور ہو جانے، بارش کے ذریعے اُن کے لیے پانی مہیا فرمانے اور میدانِ جنگ کو اُن کے لیے ہم وار اور دُشمن کے لیے دلدل بنا دینے کو بہ طورِ نعمت ذکر فرمایا گیا ہے(معارف القرآن، 194/4)۔ابنِ سعد کے مطابق رسول اللہﷺ 305 مجاہدین کے ساتھ میدانِ جنگ میں تشریف لائے تھے۔ آٹھ وہ صحابیؓ تھے، جو مختلف وجوہ کی بنا پر میدانِ جنگ میں تو موجود نہیں تھے، لیکن اصحابِ بدر میں شامل تھے اور نبی کریمؐ نے اُن کا حصّہ مقرّر فرمایا تھا۔ 

دُشمنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد تین گُنا کم تھی۔ ایسے میں اگر ایک آدمی بھی مسلمانوں کی صف میں شامل ہو جاتا، تو یہ خوشی کی بات ہوتی، مگر ہوا یوں کہ دو صحابہؓ، حضرت حذیفہؓ بن الیمان اور حضرت حسیلؓ بدر جانے والے مسلمانوں کے لشکر میں شامل نہیں تھے۔ یہ دونوں کہیں سے آ رہے تھے کہ راستے میں کفّار نے اُنہیں روکا اور اُن سے کہا کہ’’ تم مسلمانوں کی مدد کے لیے جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے انکار کرتے ہوئے وعدہ کرلیا کہ وہ لشکر میں شامل نہیں ہوں گے۔ اور پھر آنحضرتؐ کے پاس آ کر صُورتِ حال عرض کی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا’’ ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہمیں صرف اللہ کی مدد درکار ہے‘‘ (صحیح مسلم)۔

جنگ کی تیاریاں

جمعہ 17رمضان المبارک ۔ مجاہدین صبح اُٹھے، تو تازہ دَم تھے۔ آپؐ نے نمازِ فجر کے بعد جہاد پر وعظ فرمایا (مسند احمد)، پھر صحابہؓ کی صف بندی فرمائی۔ آپؐ کے دستِ مبارک میں ایک تیر تھا، جس کے اشارے سے صفیں دُرست فرما رہے تھے۔ بلاضرورت گفتگو، شور و غُل سے منع فرمایا۔ جنگ میں خود پہل نہ کرنے، اپنے تیروں کو ضائع نہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔اُدھر حکیم بن حزام نے، جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، جنگ رُکوانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ حکیم اور عمیر مل کر عتبہ کے پاس پہنچے۔ 

عتبہ بولا’’ میری بھی یہی رائے ہے کہ جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ تم ابوجہل کے پاس جائو اور اُسے میری رائے سے آگاہ کرو۔‘‘ بعدازاں، عتبہ ایک اُونچی جگہ کھڑا ہو کر اہلِ لشکر سے مخاطب ہوا’’ اے قریش کے لوگو! تم محمّد(ﷺ) اور اُن کے ساتھیوں سے جنگ کر کے کیا حاصل کرنا چاہتے ہو؟ خدا کی قسم! اگر تم نے ان سب کو اس میدان میں قتل بھی کر دیا، تو تمھیں اپنے ہی باپ، بھائی، بیٹوں اور عزیزوں کی لاشیں بکھری نظر آئیں گی۔ کیا تم اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا پسند کرو گے؟ میرا مشورہ ہے کہ واپس لَوٹ چلو۔‘‘ عتبہ کی تقریر نے قریش کی رائے تبدیل کر دی اور اُنہوں نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔ ابلیس نے جب عتبہ کی تقریر پر لوگوں کا ردّعمل دیکھا، تو اُسے لگا کہ اُس کی محنت رائیگاں جانے والی ہے۔ وہ اپنا سر پیٹتا ابوجہل کے پاس پہنچا اور اُسے ہر حالت میں جنگ کا مشورہ دیا۔

حکیم بن حزام نے ابوجہل کو عتبہ کا پیغام پہنچایا، تو وہ غصّے سے پاگل ہوگیا۔ بولا ’’خدا کی قسم! یہ جنگ ضرور ہوگی۔ ‘‘ابوجہل نے فوری طور پر عامر بن الحضری کو بلایا اور بولا’’ تمہارا حلیف عتبہ بن ربیعہ تمہارے بھائی کے خون کا بدلہ لیے بغیر واپس جانا چاہتا ہے، لہٰذا تم اپنے بھائی کی موت کا واویلا کرو۔‘‘ عامر نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑے اور جسم پر خاک ڈال کر رونا پیٹنا، چیخنا چلّانا شروع کردیا۔ جس نے لشکر کے جذبات ایک بار پھر بھڑکا دیے۔

تازہ ترین