• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں بچوں سے جنسی زیادتی میں ملوث تعلیم یافتہ شخص کی گرفتاری اور اُس کے عالمی گینگ سے تعلق نے ہر پاکستانی کو حیرت زدہ کردیا ہے۔

ملزم سہیل ایاز کی گرفتاری اُس وقت عمل میں آئی جب راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اس کے خلاف اپنے کم عمر بچے کے اغوا اور زیادتی کی رپورٹ درج کرائی۔

خاتون کے بقول ملزم سہیل نے اس کے بچے کو اغوا کیا اور نشہ آور چیزیں کھلا کر 4روز تک جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔ بعد ازاں بچے کو یہ دھمکی دی کہ اگر اس نے اس بارے میں کسی کو بتایا تو وہ اس کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردے گا۔

ملزم نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ وہ پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہے اور پاکستان آکر اس نے پختونخوا حکومت میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی جہاں اس کی تنخواہ ساڑھے تین لاکھ روپے ماہانہ تھی۔

ملزم نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ وہ اب تک 30سے زائد بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکا ہے جن کی عمریں 4سے 17سال کے درمیان تھیں۔

ملزم نے انکشاف کیا کہ اُس کا تعلق عالمی گینگ سے ہے اور وہ کم عمر بچوں کو اپنے گھر لاکر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اُن کی شرمناک وڈیوز ڈارک ویب پر فروخت کرتا تھا۔

دورانِ تفتیش یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ ملزم کچھ سال قبل برطانیہ میں بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی فلاحی تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ میں ملازم تھا جہاں وہ بچوں سے جنسی زیادتی کرتا تھا،

2009میں ایک برطانوی عدالت نے 14سالہ بچے سے جنسی زیادتی کے الزام میں اُسے 4سال قید کی سزا سنائی جبکہ اُس کے قبضے سے درجنوں بچوں کی 2000سے زیادہ تصاویر اور وڈیوز بھی برآمد ہوئیں تاہم سزا بھگتنے کے بعد اُسے برطانوی حکومت نے ڈی پورٹ کردیا جہاں سے وہ اٹلی فرار ہوگیا مگر وہاں سے بھی بچوں سے جنسی زیادتی کے الزامات کے باعث اُسے پاکستان ڈی پورٹ کردیا گیا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو برطانیہ اور اٹلی میں بچوں سے جنسی زیادتی میں ملوث رہا اور اس جرم میں سزا کاٹنے کے بعد دونوں ممالک سے ڈی پورٹ ہوا،

کس طرح خیبرپختونخوا حکومت میں بطور کنسلٹنٹ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور ملازمت سے قبل اس کا بیک گرائونڈ جاننے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی؟ دنیا بھر میں یہ پریکٹس عام ہے کہ عالمی اداروں کیلئے خدمات سرانجام دینے والوں سے ملازمت سے قبل بیک گرائونڈ کے بارے میں تحقیقات کی جاتی ہے اور اُن سے کریکٹر سرٹیفکیٹ طلب کیا جاتا ہے۔

میں نے جب پاکستان میں میک اے وش فائونڈیشن کی بنیاد رکھی تو انٹرنیشنل ادارہ ہونے کے باعث میک اے وش انٹرنیشنل سے الحاق سے قبل ان کی شرائط میں یہ شامل تھا کہ میک اے وش پاکستان کے تمام بورڈ ممبران اور اسٹاف پولیس سے اپنا کریکٹر سرٹیفکیٹ فراہم کریں جس میں یہ تصدیق کی گئی ہو کہ وہ شخص بچوں سے جنسی زیادتی جیسے اسکینڈل میں ملوث نہیں۔ میرے لئے یہ انتہائی شرمندگی کی بات تھی کہ میں اپنے ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز جن کا تعلق معاشرے کے معززین میں تھا،

اُن سے کردار کے بارے میں تصدیق طلب کروں مگر مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے عالمی ادارے کی اس شرط کو اپنی تضحیک نہ سمجھا اور کریکٹر سرٹیفکیٹ فراہم کئے۔ واضح ہو کہ دنیا میں عالمی اداروں کے قوانین میں اس طرح کی شرائط شامل ہیں کہ ادارے میں کام کرنے والے افراد کسی جرم میں ملوث نہ ہوں۔

آج کل کسی شخص کے بارے میں گوگل سے معلومات حاصل کرنا کوئی مشکل بات نہیں لیکن افسوس کہ کئی برسوں سے پختونخوا حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ملزم سہیل ایاز کے بارے میں کسی نے جاننا تک گوارہ نہیں کیا اور کئی معصوم بچے اس درندہ صفت شخص کی ہوس کا نشانہ بن گئے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ’’ساحل‘‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ہر روز 9سے 10بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور گزشتہ سال 3832بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے جبکہ بچوں سے جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں پیش آئے۔

ان واقعات میں ملوث صرف چند ملزمان کو سزا ہوئی اور باقی ملزمان ملک بھر میں دندناتے پھررہے ہیں۔

آج سے قبل یہ تاثر عام تھا کہ بچوں سے جنسی زیادتی میں صرف پسماندہ طبقے کے کم تعلیم یافتہ افراد ملوث پائے جاتے ہیں مگر حالیہ واقعہ نے اس تاثر کو غلط ثابت کردیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے۔

جس میں ملوث ملزم ہائی پروفائل تعلیم یافتہ شخص ہے اور فلاحی و سماجی اداروں کی آڑ میں بچوں سے گھنائونا فعل کرتا تھا جبکہ وہ بچوں کی پورنو گرافی سائٹ ’’ڈارک ویب‘‘ سے بھی منسلک تھا جہاں خواتین، مردوں اور بچوں سے جنسی زیادتی کی وڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

اس بات کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے ساتھ دیگر افراد بھی کام کر رہے تھے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے ادارے جو بچوں سے منسلک ہوں، میں کام کرنے والوں کیلئے پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ فراہم کرنا لازمی قرار دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی ملزم سہیل جیسا شخص اپنی ملازمت کی آڑ میں بچوں سے زیادتی کا ارتکاب نہ کرسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین