• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”میں وطن آنا چاہتی ہوں“ 20 کروڑ زندہ انسانوں کے قبرستان کے مکینوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی التجاء؟ بنتِ اْمتِ رسول ﷺبھیڑیوں کے نرغے میں پابند سلاسل ہے ۔عافیہ بی بی! آپ فاطمہ بنت عبداللہ ہی تو ہو ”ذرہ ذرہ تری مشتِ خاک کا معصوم ہے “۔واپسی کے لیے قانون موجودلیکن حمیت مفقود۔ بے غیرتی نے وطن ِعزیز میں چارسو ڈیرے ڈالے ہیں ۔صدر محترم، قائدین، اکابرین! اگر عافیہ کی عافیت سے آپ کی چشم پوشی رہی تو ملالہ کا ملال دال میں کچھ کالاہی لگے گا۔جو معصومہ عافیہ پر بیتی ہے تاریخ انسانی بے حسی، درندگی اور ناانصافی کی ایسی نظیردینے سے یکسر محروم ہے۔عافیہ کو شکل، عقل، ذہانت تو رب ذوالجلال نے عطیے کے طور پر دی تھی ۔ اس کی تقدیر اس کا جرم کیسے بن گئی؟البتہ اس غیر معمولی ذہانت اور فطانت کو اپنی تدبیر سے اپنامقدر خودبنایا، اللہ کی راہ میں سینہ سپر ہوئی تو یہودونصاریٰ کی تشویش لازم لیکن ہمارے حکمرانوں کے مروڑ سمجھ سے بالاتر۔
حافظہ قرآن، عالمہ، ماہرتعلیم ، انگریزی، عربی، فارسی، فرانسیسی،ہسپانوی زبان میں اہل زبان سے زیادہ مہارت۔ ایسی غیر معمولی خطابت کا فن کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ دانشور، مفکر، فلاسفر سن کرانگشت بدنداں رہ جائیں۔شخصیت ایسی سحر انگیز کہ اگر اس کے چند کلپس دکھا دیئے جائیں تو انسان جھوم اٹھے چونکہ اسلامی عقیدہ راسخ۔ جرم اتنا ہی کڑا۔ معصومہ عافیہ تختہ ِستم صرف اس لیے کہ اسلام پرغوروفکر اور تحقیق اس کا اوڑھنا بچھونا بن چکا۔
انسانی تہذیب کی پرچارک ۔ فلسفہ قرآنی کو انسانیت کے لیے راہ نجات سمجھنے والی اللہ کی پارٹی میں شامل ہو چکی تھی ۔ جب قرآن کے دائمی پیغام کی پکار آئی”کونواانصار اللہ “تو معصومہ عافیہ کا جواب آیا ”انا من انصار اللہ“۔یہی عافیہ کا جرم ٹھہرا۔اب عافیہ ڈیڑھ بلین مسلمانوں کو پکار رہی ہے کوئی ہے جو اللہ کے مددگار کی مدد کو پہنچے ۔بقول عالمی شہرت یافتہ مفکر نوم چومسکی” عافیہ کے اندر معاشرے اور سسٹم کو بدلنے کی ساری صلاحیتیں ہیں “۔ امریکی ریسرچ سکالر اسٹیفن لینڈمین ” کہ عافیہ نے غلط وقت میں غلط جگہ راست گوئی کے بیج بونے چاہے۔ ایسی غیر معمولی صلاحیتیوں کی حامل شخصیت کو نظرانداز کرنا پورے نظام کی ساکھ کو داؤ پر لگانا تھا“۔
یا ربِ ذوالجلال عافیہ پر چلنے والی گولی کام کیوں نہ دکھا سکی ۔ 1/4 سینٹی میٹر اوپر ہوتی تو دل چیر دیتی ۔ (5.4) M-4 رائفل کی گولیاں جوپہاڑ کو چیرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عافیہ کو شہید کیوں نہ کر سکیں۔ شایداُمت کا امتحاں مقصود تھا۔بھلاکونسی امت ،امت تو بیت گئی۔ تاجر،دکاندار،مولوی ،لبرل فاشٹ ،مفادپرست اور کمی کمین بچ گئے۔ اُمت تو لاش بن چکی 20کروڑ پاکستانی بے عزتی اور بے حمیتی کے تازیانے تو جھیل سکتے ہیں عافیہ کے لیے ٹس سے مس ہونا بس میں نہیں۔ حمیت نامی شے کو رخصت ہوئے صدیاں بیت گئیں۔قائدین تو بے غیرتی کاقطب مینار ثابت ہوچکے ۔ہرفردہے ملت کے مقدر کا ستارہ یعنی قوم کے اچھے برے مقدر کا ذمہ دار۔ ہماری مقتدر اشرافیہ کا بیشتر حصہ پانچوں شرعی عیب سے مالامال بلکہ ان کے چھٹے عیب خیانت افشانی نے توملک کی چولیں ہلا چکا۔لوگو!ان حکمرانوں کے جرائم اور لوٹ کھسوٹ میں” آپ کے ضمیر کی آواز“شامل ہے۔ اسی زعم میں توبردہ فروشی،لوٹ کھسوٹ، غداری،بیرونِ ملک جائیدادیں بنا کر اتراتے پھرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جہاد کی تین صورتیں جب بتائیں کہ ظلم، جھوٹ، بددیانتی ، فحاشی،عریانی کو ہاتھ سے روکو۔ کمزور ترین صورت جو کمزور ترین لوگوں کے لیے کہ دل سے برا کہو۔ وائے بدنصیبی امتِ مرحومہ تینوں کیفیتوں سے محروم۔ تبھی تو لٹیرے ، بددیانت،خائن ، جھوٹے بغیر کسی شرم و جھجک منتخب ہو کر عوام کوہی جوتے مارتے ہیں ۔اپنی بددیانتی ، خیانت، جھوٹ،نااہلی کی وضاحت نہ معافی مانگنے کی ضرورت۔
ڈاکٹر عافیہ جیسی بدقسمت کے لیے اپنی قسمت کا نچوڑ کیوں داؤ پر لگائیں۔عافیہ کو بار بار بیچنے والے حکمران آپ کے ووٹ کی طاقت سے حکومتوں پر قابض ہیں۔ اے اہلِ وطن ان کے جرائم میں آپ برابر کے شریک ہو ۔ قوم کی بیٹی کی تذلیل پر ایسا سناٹا۔لاوارث قوم کی لاوارث بیٹی معصومہ عافیہ کاکوئی پرسان حال نہیں۔کیا متعصم باللہ کو ماضی کا قصہ سمجھیں جب عموریہ کی پکار پر ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے پہنچااور عموریہ کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ آج ہزاروں میل دور ہماری عموریہ درندوں کے قبضہ میں ہے ۔
3 ماہ قبل 29 نومبر 2012 کو عافیہ بی بی کی وکیل ٹینا فوسٹر(TINA FOSTER) نے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب آصف علی زرداری کے نام ایک خط لکھا ۔ آج تک اس خط کو درخوراعتناء نہیں سمجھاگیا۔ ابھی حال ہی میں نیب کے ڈی جی نے سپریم کورٹ کے بارے میں صدر محترم کو ایک شکایتی مراسلہ لکھا خط صدر محل پہنچنے سے پہلے ہی قومی اخبارات کی زینت بن چکا تھا اور چند دن بعد اس پر کارروائی بھی شروع ہو چکی تھی۔ ٹینا فوسٹر نے صدرِ محترم جناب آصف علی زرداری کی توجہ کس طرف دلائی ہے اس نے کہا کہ عافیہ کی پاکستانی جیل منتقلی سب سے آسان راستہ ہے بشرطیکہ ہمارے حکمران غیرت اور حمیت کی چند بوندیں ٹپکائیں۔ ٹینا فوسٹرنے اپنے خط میں تین مشورے دئیے ہیں۔
1 ۔ ”بین الاقوامی معاہدہ برائے منتقلی قیدی“ حکومت پاکستان لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اس پر سائن نہیں کر رہی ۔ پاکستان کی تحویل میں جو قیدی رہے رمزی یوسف، ایمل کانسی،مشعل خالد، ریمنڈڈیوس اور سینکڑوں دوسرے جو یک طرفہ ”چور نالوں پنڈ کالی“کو رنیش بجا لاتے ہوئے امریکہ کو پیش کر دئیے ۔بردہ فروشی کی یکطرفہ ٹریفک کی بجائے قیدیوں کی باہمی منتقلی کے معاہدے پر دستخط پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے ۔سائن کرنے کے بعد شاید ہمارا قانونی استحقاق ہی ہماری عافیہ سے ہمیں ملوا دے۔
2۔عافیہ کی گرفتاری غیر قانونی اور بے شمار قوانین اور ہیومن رائٹس کی پامالی کا شاخسانہ ہے چنانچہ ایڈہاک یا غیررسمی یا بیک ڈور سفارتکاری سے رہائی یا منتقلی ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔حال ہی میں امریکی سفیر رچرڈ ہوگ لینڈ نے اشارہ دیا ہے” اگرچہ قیدیوں کے تبادے کا معاہدہ موجود نہیں لیکن اگر ارادے نیک ہوں نیت موجودہو تو سب ممکن ہے “۔ امریکی حکومت نے غیر قانونی طور پر عافیہ کو زخمی حالت میں افغانستان سے اغوا کر کے امریکہ پہنچایا۔ ہم یواین اور بین الاقوامی عدالت میں مقدمے کا حق رکھتے تھے جواستعمال نہ کر سکے۔ امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے پچھلے سال پاکستان کے دورے پر امریکی پٹھوؤں اور گماشتوں کو یہی سبق پڑھایا کہ غیر قانونی اغواء کا کیس بنا کر امریکہ کو دباؤ میں لایا جا ئے ۔ امریکہ ہمیں تو جوتے کی نوک پرنہیں رکھتاالبتہ اقوامِ عالم میں اس کواپنی ساکھ کی فکر ضرورہے۔
3۔عافیہ کی افغانستان سے امریکہ غیرقانونی منتقلی بلکہ بے رحمانہ سپردگی۔ایسی بہیمانہ اور بے رحمانہ واردات کے باوجود پاکستان امریکہ کی جنگ میں جتا ہوا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ فوری طور پر امریکہ مدد اس وقت تک نہ، جب تک عافیہ کی منتقلی نہ ہو جائے ۔اس سے پہلے ہم ریمنڈڈیوس کے مسئلے پر نااہلی دکھا چکے۔ آج وہ امریکہ میں آزاد گھوم رہا ہے اور عافیہ انہی کی جیلوں میں گل سڑ رہی ہے۔امریکہ کو دباؤ میں لاکر ہی واپسی ممکن ہے ذرا سوچیے ہمارے ہاں امریکی عسکری جتھوں کی صورت میں آتے ہیں قتل و غارت سے لے کر ہمارے شہریوں کو گرفتار کرتے ہیں اور ہمارے منہ پر تھوک کر ان کو اپنے ملک لے جاتے ہیں ۔ یوسف ، ایمل کانسی، خالد مشعل اور سینکڑوں ایسی وارداتیں ایک سے ایک ہولناک داستان رقم کر رہی ہیں ۔ کمانڈو خود فرماتے ہیں کہ میں نے سینکڑوں افراد گرفتار کر کے امریکہ بہادر کی خدمت میں پیش کیے۔ معصومہ عافیہ بے غیرتی اور بے حیائی کی ایک عجب المناک کہانی ہے جو ہماری قومی حمیت پر تازیانے برسارہی ہے ۔اے میری قوم کے جری اور سجیلے جرنیلواس قوم کی آپ سے بھی توقعات ہیں ۔
عافیہ کو امریکہ کے سپرد کیا تھااگر آج عافیہ واپس نہ آئی تو بڑی جلدی سب کی بچیوں کی باری آسکتی ہے ۔ قوم نے انگڑائی لی تو یہ اللہ کی طرف سے پکڑ ہی ہو گی اور جب اللہ کا فیصلہ آگیاتو قائدین اور پٹھوحکمرانوں کے لیے زمین تنگ ہو جائے ۔عافیہ کی پکار ساتویں آسمان کو لرزا رہی ہے۔ 30 مارچ 2003 وہ سیاہ دن تھا جب عافیہ کو اغواء کر کے امریکہ کو بیچا گیا۔30 مارچ پھر آرہا ہے آئیے عہد کریں کہ مارچ میں طوفان برپا کر دیں ۔ یہ نمائندے آپ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے کمربستہ ہو چکے ہیں۔ اپنے حقوق بچانے کی ترتیب میں ان لوگوں سے عافیہ کی بازیابی کا عہد پہلے لیں۔ مارچ میں ایسے ایسے عافیہ مارچ ہونے چاہئیں کہ پہلو تہی کرنے والے کوئیک مارچ کرتے نظر آئیں۔
صدر محترم جہاں آپ نے چین کو گوادر پورٹ دے کر اور ایران سے تیل سپلائی کا معاہدہ کرکے کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔ عافیہ کی واپسی کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیں۔آپ کی سات پشتوں کے گناہ دھل سکتے ہیں۔عوام الناس سے گزارش ہے کہ اگر الیکشن سے پہلے عافیہ واپس نہیں لائی جاتی توووٹ مانگنے والوں کاباجا بجا دیں اور سارے شہر کا گوبراور کچرا ان کے جلسوں میں لے جا کرقائدین کے اوپر پھینکیں جوبھی عافیہ کی تحریک کا حصہ بننے سے انکاری ہو ۔
عافیہ!گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمہ ”قدرت“ بھی نالہ ماتم میں ہے
تازہ ترین