• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے لبرل قسم کے لوگ بہت پسند ہیں ۔یہ لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں ،منطقی انداز میں بحث کرتے ہیں، مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں ،خواہ مخواہ دوسروں پر اپنے نظریات مسلّط نہیں کرتے،دلیل سے بات کرتے ہیں، عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں،جمہوریت اور شخصی آزادی کے حامی ہوتے ہیں ،عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کے علمبردار ہوتے ہیں،جذباتی اور کھوکھلے نعروں کی آڑ میں مقبول نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غریب اور پسے ہوئے طبقات کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں مگر خود غریب نہیں ہوتے !
ہمارے ہاں بھی ایک لبرل طبقہ موجود ہے۔لیکن پاکستان کا چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے سو ہمارا یہ لبرل طبقہ بھی نرالی سج دھج رکھتا ہے ۔اپنے ہاں جو لبرل مرد اور عورتیں پائی جاتی ہیں انہیں آپ ”دیسی لبرل “کہہ سکتے ہیں۔یہ لبرل لوگوں کی وہ قسم ہے جو شراب پینے کو لبرل ازم کی سب سے بڑی نشانی سمجھتی ہے ،ان کا موٹو ہے ”جو شراب نہیں پیتا،وہ ہم میں سے نہیں “تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر شرابی ان کے نزدیک لبرل ہے کیونکہ شراب کے نام پر دیسی ٹھرا تو یہاں غریب عیسائی بھی چڑھا جاتا ہے مگر وہ بیچارہ ان لبرلز کے نزدیک بھی نہیں پھٹک سکتا حالانکہ وہ اقلیت کے زمرے میں بھی آتا ہے ۔اسی طرح یہ دیسی لبرلز ،انگریز ی بولنے کو بھی لبرل ازم کی معراج سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اردو”کمیوں“کی زبان ہے ۔جہاں کہیں دو مجہول قسم کے لوگ جینز کے اوپر چھوٹا سا کرتا پہن کر کھڑے ہوں اور انگریز ی میں فرانز کافکا کے افسانوں کے بارے میں لا یعنی گفتگو کر رہے ہوں ،سمجھ لیں کہ وہ دیسی لبرل ہیں ۔
ان کی تیسری خصوصیت ان کی رعونت ہے ۔اصولاً تو انہیں بے حد نرم گفتار ،شائستہ ،حلیم الطبع اور عجز و انکسار کا قطب مینار ہونا چاہئے لیکن یہ چونکہ دیسی لبرل ہیں اس لئے ان کے ڈی این اے میں فرعونیت کے جینز اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہ فرعونیت اس وقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے جب کوئی اردو میڈیم بندہ ان سے اختلاف رائے کرے ۔اپنے ان دیسی لبرلز کی چوتھی خصوصیت نہایت دلچسپ ہے ۔انہیں غریب اور نچلے طبقے کی کسمپرسی کا درد بہت اٹھتا ہے جس کا اظہار یہ اپنی گفتگو اور تحریروں میں بھی کرتے ہیں مگراس طبقے کے لوگوں سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ،ان کے پاس سے بھی گذر جائیں تو اپنے تئیں ان پر غسل واجب ہو جاتا ہے ۔
دیسی لبرلز کوفیشن کے طور پر منٹو بہت پسند ہے ۔کوئی شبہ نہیں کہ منٹو صاحب اردوکے بہت بڑے افسانہ نگار تھے مگر ان کی پسندیدگی کی واحد وجہ یہ نہیں کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو ہمارے یہ دیسی لبرلز احمد ندیم قاسمی صاحب کے بھی دلدادہ ہوتے ۔لیکن در حقیقت انہیں اول الذکر محض شراب نوشی کی بنا پر پسند ہے ۔انہیں منٹو صاحب کے بارے میں جن باتوں کا علم ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ منٹو ایک بیباک افسانہ نگار تھا جس کا ثبوت اس کی کہانیوں میں سیکس کی شکل میں ملتا ہے حالانکہ لطیفہ تو یہ ہے کہ منٹو کے افسانوں کے کردار ایسے تھے جنہیں یہ دیسی لبرلز کبھی منہ لگانا بھی پسند نہ کریں ۔منٹو نے جس طبقے کی تصویر کشی کی، وہ طبقہ تو ہمارے ان لبرلز کے لئے ”مصلّی“کا درجہ رکھتا ہے ۔خود منٹو صاحب نے اپنی زندگی بے حد کسمپرسی میں گذاری، آج اگروہ زندہ ہوتے تو یہ لبرل اسے اپنے پاس بٹھانا بھی گوارا نہ کرتے ۔
دیسی لبرلز کو بلھے شاہ کا حوالہ دینے کا بھی بہت شوق ہے تاہم یہ اور بات ہے کہ انہوں نے بلھے شاہ کے اکا دکا شعر ہی سن رکھے ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اس کے کلام کا ری مکس کیا ہوا گانادیکھا ہوتا ہے ۔اگر انہیں واقعی بلھے شاہ یا کسی بھی علاقائی زبان کے شاعر سے محبت ہو تو یہ اپنے بچوں کو وہ زبان بھی اتنے ہی شوق سے سکھائیں جتنے شوق سے انگریز ی سکھاتے ہیں ۔مگر ایسا نہیں ہے ۔پنجابی یا دیگر علاقائی زبانیں اور اردو ان کے نزدیک مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی زبان ہے جبکہ کارل مارکس کے ان پیروکاروں کی زبان انگریزی ہے ۔البتہ جس ذوق و شوق سے اب ہماری قوم انگریزی سیکھ رہی ہے (اوردنیا میں ترقی کے لئے یہ بے حد ضروری ہے ) وہ دن دور نہیں جب ہمارے ان دیسی لبرلز کے نزدیک سٹیٹس سمبل انگریزی کی بجائے فرنچ یا جرمن ہو جائے گا ۔دیسی لبرلز کی آخری اور سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ان کی جڑیں معاشرے میں نہیں ہوتیں ۔یہ پانچ دس برسوں میں ایک مرتبہ بچوں کو اپنے گاؤں لے کر جا تے ہیں تاکہ انہیں یہ ثابت کر سکیں کہ ان کے آباؤ اجداد کی جڑیں یہاں تھیں مگر ان کا یہ ٹور ڈی بھائی پھیرو ویسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی گورا صاحب پاکستان کے مختصر دورے پر آئے اور یہاں کی بود و باش کویوں حیران ہو کر دیکھے جیسے وہ پتھر کے دور کے انسان سے تعلق رکھتی ہوں ۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آ ج میں بیچارے لبرلز کے پیچھے لٹھ لے کر کیوں پڑ گیا ہوں کیونکہ بہرحال یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو ملک میں جاری انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں ۔بھلے یہ دیسی لبرلز اپنے خیالات میں انتہا پسند ہی کیوں نہ ہوں مگر سر دست انہیں اپنے نظریات تھونپنے کا موقع نہیں مل رہا جیسے ہماری بعض مذہبی تنظیمیں یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں ۔دراصل پچھلے دنوں لاہور لٹریری فیسٹیول کا غلغلہ رہا جو بلاشبہ ایک بہت عمدہ کاوش تھی جس کاسہرا اس کے منتظمین کو جاتا ہے ۔اس ادبی میلے کا انتظام و انصرام ،صفائی ستھرائی اور ڈسپلن یقینا مثالی تھے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اور اس معیار کو یقینی بنانے کے لئے منتظمین نے اچھاخاصا پیسہ خرچ کیا۔ یہ سب قابل ستائش باتیں اپنی جگہ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس ادبی میلے میں اردو بولنے والے ادیب اور عام آدمی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ما سوائے انتظار حسین صاحب اور ایک آدھ دوسرے ادیب کے (جن کے بغیر یہ میلہ با لکل ہی بے معنی ہو جاتا ) تمام فوکس انگریزی پر تھا۔ دیسی لبرلز کا اتنا عظیم الشان اجتماع چشم فلک نے اس پہلے نہیں دیکھا تھا ۔ شائد یہ بات بھی قابل اعتراض بات نہ ہوتی مگر ان دیسی لبرلز نے ادبی میلے کا ماحول کچھ ایسا بنا دیا جہاں اردو بولنے والے اپنے آپ کو تیسرے درجے کا شہری سمجھ کر منہ چھپاتے پھرتے رہے ۔کانفرنس میں ایک سیشن منٹو سے متعلق بھی تھا جہاں منٹو کے فن پر انگریزی میں گفتگو کی گئی۔جن ”لبرل“ خاتون نے یہ گفتگو کی ان کی علمیت میں کوئی شبہ نہیں لیکن ان کے رعونت سے اندازہ ہوتا تھا کہ اگر منٹو صاحب زندہ ہوتے تو شاید انہیں بھی ہال میں داخلے کی اجازت نہ ملتی ۔یہاں انگریزی میں گفتگو کی دلیل یہ دی گئی کہ میلے میں بھارتی حاضرین بھی موجود ہیں لہٰذا ان کی سہولت کے لئے انگریزی زبان کا استعمال ضروری ہے ۔یہ دلیل کسی لطیفے سے کم نہیں کیونکہ پورے بر صغیر میں ایک ہی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے اور یہ وہی زبان ہے جس میں بھارتی فلمیں بنتی ہیں ۔
بات نہایت سادہ ہے ۔یہ دیسی لبرلز انگریزی کے بل بوتے پر عام آدمی کی تحقیرکرتے ہیں ،منٹو کا نام بطور فیشن استعمال کرتے ہیں ،اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے اور اردو میڈیم کو کمی کمین سمجھتے ہیں۔ہمیں اس ملک میں دیسی لبرلز اور مذہبی انتہا پسندوں کی نہیں، حقیقی لبرلز اورروشن خیال علمائے کرام کی ضرورت ہے !
تازہ ترین