• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’غریب آباد‘ یہاں سے کبھی سرکلر ٹرینیں گزرا کرتی تھیں

حبیب احمد

لیاقت آبادکے سامنے سرکلر ریلوے لائن کے ساتھ غیر آباد علاقے میں راج، مزدور، جن کی یومیہ اجرت 2روپے سے4روپے تک تھی، جھگیاں ڈال کر اپنا سر چھپانے کا ٹھکانہ بنا یا۔چکنی مٹی ، گھاس پھونس ، بانس اور ٹاٹ اور ٹین کی چھتوںسےبنے گھروں پر مشتمل تقریباً 5 مربع کلومیٹر کے علاقے میں ایک گنجان کچی آبادی وجود میں آگئی تھی، جس کا ایک سرا لیاقت آباد کے چوراہے سے شروع ہوکر ریلوے پھاٹک تک جاتا تھا جب کہ مشرق میں لیاری ندی سے ذرا پہلے اس کا اختتام ہوتا تھا۔ 

 اس زمانے میں یہاں سے صبح سے رات تک کئی سرکلر ٹرینیں گزراکرتی تھیں، جن کے گزرنے سے قبل پھاٹک بند ہوجاتا تھا۔اس کے مغربی سمت، جہاں آج شریف آباد کے 120گز کے رقبے پر بنگلے بن گئے ہیں ، اس کے سامنے لیاقت آباد کے نام سے سرکلر ٹرین کا اسٹیشن تھا، یہاں سے فیڈرل کیپٹل ایریا کے فلیٹوں بلکہ گجر نالے تک میدانی علاقہ تھا جب کہ مشرق میں ندی کی دوسری جانب سوائے دھول، مٹی اور جھاڑیوں کے کچھ بھی نہ تھا، جہاں آج الکر م اسکوائر کے فلیٹ ہیں، وہاں کے آر ٹی سی کی بسوں کا ڈپو تھا۔ 

پہلے یہاں سے ایک سنگل سڑک گزرتی تھی ۔ اس وقت تک یہ علاقہ لیاقت آباد کے ساتھ ملحق تھا۔ غریب آباد کے ریلوے پھاٹک سے تھوڑے فاصلے پر 6نمبر بس کا اڈہ بن گیا۔ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر آگئی۔ جب کہ اس سے قبل مقامی لوگ لیاقت آباد دس نمبر پر اتر کر ایک کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرکے اس بستی تک پہنچتے تھے۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لیاقت آباد کے علاقے کے ساتھ الاعظم اسکوائر، شریف آبادا، پاسم آبادور دیگر علاقے قائم ہوگئے ۔ بلند وبالا عمارات کا جنگل آباد ہوگیا۔ سڑک بھی کشادہ اور دو رویہ ہوگئی، لیاری ندی پر بھی پل بن گیا، جس کی وجہ سے غریب آباد کے علاقے میں بھی ترقی ہوتی گئی۔ پہلے یہاں کچے مکانات کے ساتھ پتلی پتلی نالیاں بنی ہوئی تھیں، جن میں گھروں کا گندا پانی ان نالیوں کے ذریعے لیاقت آباد کی مین گٹر لائن میں جاتا تھاجو آگے جاکر لیاری ندی میں گرتی تھی۔نکاسی آب کا یہ سارا کام اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں نے خود کیا تھا۔ یہاں کی آبادی اس وقت سندھی، کشمیری، اور پنجابیوں پر مشتمل تھی جب کہ کچھ تعداد مہاجروں کی بھی تھی۔ 

ریلوے لائن کے قریب جھگیوں میں رہنے والے گرمیوں سے پریشان ہوکر ریلوے لائن کے ساتھ چارپائیاں بچھا کر رات کے پچھلے پہر تک چوپال سجائے رکھتےتھے اور بچے کھیلا کرتے تھے۔ اس بستی کی وسعت کوروکنے کے لیے اس سے متصل اسحق آباد کے نام سے ایک رہائشی سوسائٹی قائم کردی گئی ،جہاں 120 گز کے پلاٹوں پر بنگلہ نما مکانات بننے لگے۔ آج اس کے تین اطراف جدید رہائشی بنگلے اور ایک جانب لیاقت آباد کے 80گز کے مکانات واقع ہیں۔ غریب آباد کی ہیئت بھی تبدیل ہوگئی ہے۔ اس بستی کے سامنے دو انڈر پاسز بن گئے ہیں۔ 

غریب آباد کے چوراہے سے عزیز آباد کی جانب جانے والی سڑک بھی کشادہ ہوگئی ہے۔ سرکلرٹرینیں 1994میں بند ہوگئیں تھیں، اس لیے ریلوے پھاٹک بھی ختم ہوگیا۔ ریلوے کی پٹڑیاں اکھاڑ کر لوہار بازاروں میں فروخت کر دی گئیں۔عزیز آباد کے آغاز میں میمن برادری پر مشتمل حسین آبادکا علاقہ ہے، جہاں ایک بڑی فوڈ اسٹریٹ بن گئی ہے۔ سابقہ پھاٹک کے ساتھ کے الیکٹرک کا گرڈ اسٹیشن ، اس سے ذرا آگے علم و ہنر کے دوعالیشان ادارے، ان کے بالمقابل ایک نجی اسپتال، تھوڑے فاصلے پر سابقہ ریلوے اسٹیشن کےقریب شریف آباد تھانہ، اس سے تھوڑے فاصلے پر سندھ گورنمنٹ اسپتال، جہاں تمام جدید طبی سہولتیں دستیاب ہیں۔ 

بستی کےساتھ ہی بس اسٹاپ سے تمام رہائشی، تجارتی و کاروباری مراکز اور صنعتی علاقوں میں جانے کے لیے بسیں، کوچز اور ویگنیں مل جاتی ہیں جب کہ دیگر گاڑیاں یہاں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دس نمبرکے اسٹاپ سے ملتی ہیں۔اس بستی سے چند فرلانگ کی دوری پر کریم آباد اور الاعظم اسکوائر کے تجارتی مراکز، حسین آباد کے سامنے کے علاقے میں کاٹیج انڈسٹری اور چھوٹی فیکٹیریاں قائم ہوگئی تھیں، جن میں غریب آباد کے باسیوں کو روزگارمل گئے تھے۔ اس سے تھوڑی سی دور، دو قدیم کالجز اور اسکولوں کی عمارتیں بھی واقع ہیں۔ 

 ریلوے لائن کی جگہ پر اینٹوں کا تھلہ، کباڑ اور پرانے فرنیچر کی دکانیں، پان کی دکانیں اور چھوٹے ہوٹل قائم ہوگئے ۔بستی کے اندر کئی مساجدہیں۔ اس کے سامنے ایک ٹوٹی ہوئی چہار دیواری میں بہت بڑا میدان ہے، جہاں ایک پارک اور پلے گراؤنڈ بن سکتا ہے۔یہاں کی گلیاں سکڑ کر اور بھی تنگ ہوگئی ہیں اور ان کی چوڑائی 2 سے 4فٹ تک ہے۔ 5فٹ چوڑی گلیوں میں چھوٹے چھوٹے بازار ہیں، جہاں گوشت، سبزی اور پرچون کی دکانیں ہیں۔ ریل کی پٹڑیوں کا وجود مٹ چکا ہے۔ 

 یہاں آج بھی ان راج مزدوروں کی اولادیں رہتی ہیں ،جنہوں نے لیاقت آباد کے مکانوں کی تعمیر کی تھی۔ ان میں سے بہت سے افراد نے دوسرا پیشہ اختیار کرلیا ہےلیکن زیادہ تر لوگ ابھی بھی پرانے پیشے سے منسلک ہیں ان ہی لوگوں نے زیرزمین نکاسی آب کی لائنیں ڈالیں، مین ہولز بنائے اور ان کا رخ مین سیوریج لائن تک کیا۔ گلیوں کو پختہ کیا ۔ یہاں کا اصل مسئلہ تجاوزات کا ہے۔ 

زیادہ تر گھر چالیس گز کے رقبے پر محیط ہیں لیکن لوگوں نے اپنی رہائشی جگہ وسیع کرنے کے لیے گھروں کی حدود آگے بڑھالی ہیں، جس کی وجہ سے گلیاں سکڑ گئی ہیں۔ یہ بستی ساٹھ سال پہلے لیز ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے گھروں میں بجلی کے کنکشن دیئے گئے تھے۔ ریلوے لائن کی دوسری جانب گرڈ اسٹیشن کے ساتھ کئی ایکڑرقبے کا وسیع و عریض میدان ہے،۔ ریلوے لائن کے اطراف تجاوزات قائم ہوگئی تھیں۔ 2018 میںعدالتی احکام پرکراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے کیا جانے والا آپریشن میں ضلعی وسطی کے علاقے غریب آباد میں ریلوے حکام، ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام کی نگرانی میں بھاری مشینری کے ذریعے سرکلرریلوے کے اطراف قائم پکے مکانات مسمارکردیے۔

آپریشن کے دوران علاقہ مکین اور متاثرین مشتعل ہوگئے اور آپریشن روکنے کی کوشش کی،مگر کوئی سنوائی نہیں ہوئی ۔ مکانات گرائے تو کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تھے ،مگر اس ریل کا کہیں نام و نشان تک نہیں۔ چھ مہینے سے متاثریں کھلی چھت تلے گرم ،سرد سہنے پر مجبور ہیں۔

عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے تحت ان مکینوں کو متبادل گھر بھی فراہم کیا جانا تھا البتہ انتظامیہ نے مکانات ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل کرنے کے بعد یہاں کا رخ تک نہ کیا۔باہر سے دیکھنے والوں کے لئے شاید یہ ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہوں، مگر ان گھروں کے مکینوں کے لئے یہ ایک پوری تاریخ ہے-کیا ترقی کو اتنی بڑی قیمت ادا کر کے لانا لازمی ہے؟

تازہ ترین