• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھولے بسرے روزگار: جدید دور میں کام کاج ہی نہیں رہن سہن تک بدل گئے

عبدالغفورکھتری

دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد ذرائع روزگار اور کاروبار ایک نئی کروٹ لینے لگے۔ یورپ میں روزگار کے وسیلوں میں مشینری کا عمل دخل بڑھنے لگا۔ روزگار کی ہئیت بھی بدلنے لگی۔ برقی موٹروں کے بڑھتے رواج سے ابتداء میں بے روزگاری کا سیلاب امڈ آیا ،مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد اسی برقی موٹر کی بدولت صنعت کے پھیلائو نے ان سب کو برسر روزگار کر دیا۔اور جب برقی موٹر نے بڑھتے بڑھتے الیکٹرونک کا دامن تھاما، تو دنیا نے پھر ایک نئی انگڑائی لی اور اس ملاپ نے کام کاج اور رہن سہن کے ساتھ ساتھ معاشرتی قدروں تک کو بدل دیا۔اس نئی لہر نے روزگار کے کئی ایک وسیلوں کو بھولی بسری یادیں بنا دیا۔

آج ہم اپنے شہر کے ان ذرائع روزگار کا ذکر کریں گے۔ جو اب بھولی بسری یادوں کی صورت عمر رسیدہ لوگوں کے ذہنوں میں اپنا نقش چھوڑ چکے ہیں۔

فلمی گانوں اور قوالیوں وغیرہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایڈیسن کا ایجاد کردہ گرا موفون ایک شاندار تفریح تھا ۔گراموفون بیچنے،اسے مرمت کرنے اور گراموفون پر بجنے والے نئے ریکارڈز فروخت کرنے والوں کی دکانیں شہر میں خصوصاً صدر میں موجود تھیں، کھوڑی گارڈن کے اطراف کی ایک دیوار کے ساتھ قائم کیبنوں میں گراموفون کی مرمت اور پرانے ریکارڈ کی خریدوفروحت کا کاروباری جاری تھا۔

پھر ! پھر زمانے نے ایک جست لگائی اور ایک صدی کا مان ریزہ ریزہ ہونے لگا۔ برقی موٹر اور الیکٹرونک کے ملاپ نے پرسکون تالاب میں ایک کنکر پھینک دیا۔ اب چوپالوں، محفلوں اور بیٹھکوں کی وہ رونقیں اجڑنے لگیں، جہاں خاندان کے افراد یا دوست یار اکٹھے ہو کر گراموفون پر نغموں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

اب نہ وہ محفلیں رہیں، نہ بیٹھکیں، تو ایسے میں جب گراموفون ، سننے والے نہ رہے۔ تو انہیں بیچنے اور مرمت کرنے والوں نے بھی اپنی دکانیں بڑھا دیں۔ اور یوںاس کے سحر کا طویل المدت و رومان پرور دور اختتام کو پہنچ گیا۔اب اس کی جگہ بجلی سےچلنے والا چینجر (ریکارڈ پلیئر) مارکیٹ میں آ گیا ۔مختصر جسارت اور ارزاں قیمت کی بدولت ہر ایک کی دسترس میں آجانے پر اس نے اپنی قدر کھو دی۔

انیسویں صدی کے ا واخر کی ایک اور جادو نگری ،تعارف ہو چکی تھی، جسے ریڈیو کا نام دیا گیا۔ ابتداء میں دنیا بھر کی حکومتیں اسے اپنے پروپیگنڈے کے لئےاستعمال کرتی رہیں۔ بعد میں عوام کی دلچسپی کی خاطر کچھ تفریحی اور معلوماتی پروگراموں کا اضافہ کیا گیا۔ اس طرح بیسویں صدی کے وسط تک لوگوں میں ریڈیو کی نشریات سننے کا باقاعدہ ذوق پیدا ہونے لگا۔آہستہ آہستہ ریڈیو کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ 

اب صاحب ثروت لوگوں کے گھروں میں بڑی سی میز پر دھرا بجلی سے چلنے والا ٹیکنالوجی کا یہ صندوق نما ریڈیو افتخار کی علامت بننے لگا۔ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے، اس وقت مغربی پاکستان میں دن کا ایک اور مشرقی پاکستان میں دن کے دو بجے ہیں،اب آپ خبریں سنیں گے ‘‘دن میں تین چار بار اس مانوس سی آواز کے سنگ سنگ نغموں اور سروں کی مدھر آوازیں گھروں سے آنے لگیں۔

پھر ستر کی دھائی میں یہ ویو ہیکل ریڈیو اچانک سکڑ گیا۔ اب بیٹری سیل کی مدد سے چلنے والا ٹرانز سٹر (Transister) ریڈیو مارکیٹ میں آ گیا۔ کم قیمت اور ہاتھ میں اٹھائے رکھنے کی جسامت کی بدولت اب ریڈیو پروگراموں کی آوازیں گھروں ،دوکانوں اور گلی کوچوں میں گونجنے لگیں۔ریڈیو بنانے والی کمپنیاں ،اسے مرمت کرنے والے کاریگر ،اس کے اسپیئر پارٹس فروخت کرنے کی دکانیں ،گویا ان سب کا ایک جال سا بچھ گیا۔

تقریباً ایک صدی تک ریڈیو نے دنیا بھر کے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ ےرکھا ۔ سن ساٹھ ،ستر کی دہائی میں ٹیپ ریکارڈ اور ٹی وی کے مشترکہ طوفان نے گھروں اور دوکانوں میں بیٹھے ریڈیو کی نشریات کو ہمہ تن گوش سامعین میں ہلچل مچا دی۔

وہ ہفتے میں ایک بار پکے راگوں سے محظوظ ہونے والے عمر رسیدہ لوگ، ہفتے میں ایک بار ریڈیو سے نشر ہونے والے صوتی ڈرامے کے شوقین اور ہفتے میں ایک ہی بار فلمی نغموں کے منتظر نوجوان۔اس طوفان نے ہفتے بھر کے پروگراموں کے انتظار کی مٹھاس کو ختم کر دیا۔ طلب اور رسد کا توازن بگڑ گیا۔ کسی نغمے کے سننے کے طویل المدت انتظار کے بجائے ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے اس وقت آرزو کی تکمیل نے ریڈیو کے سورج کو گہنا دیا۔

یوں کئی دھائیوں پر مشتمل ریڈیو نشریات سے محظوظ ہونے والوں کی بنائی چھوٹی سی دنیا اجڑ گئی۔ اب ریڈیو سے منسلک کاروبار کا سارا جال ٹوٹنے لگا۔اس طرح ایک اور ذریعہ روزگار ،جسے وقت کی دھول نے چاٹ لیا۔

برصغیر میں شادی بیاہ کی رسومات کئی رنگ لئے ہوئے ہیں، اور یہ رنگ نسلی اور ثقافتی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ کراچی میں مقیم کچھی و گجراتی برادری کے کچھ خاندان اپنی بیٹی یا بہن کے بچوں کی شادی بیاہ میں بیٹی یا بہن کی ایک اوڑھنی تحفے میں دیا کرتے تھے، جس کے کناروں پر عام زری کے ساتھ ساتھ دوچار چاندی کے ایک یا دو سونے کے تار بھی شامل ہوتے تھے۔ ماں باپ کے گھر سے ملی اس قیمتی اوڑھنی کو بعد میں کسی خاص موقع پر سر پر ڈالا جاتا تھا۔کچھ برس گزرنے کے بعد جب وہ اوڑھنی اپنا رنگ وروپ کھونے لگتی، تو اسے بیچنے کا سوچا جاتا ۔ 

ان دنوں اسے خریدنے والے مخصوص لوگ ’’جونا زری‘‘ کی آواز لگاتے، محلوں میں گھومتے رہتے تھے۔ یہ مشاق لوگ اوڑھنی میںچاندی اور سونے کے تاروں کی تعداد اور اس کے خالص پن کو پرکھنے کے لئے کچھ کیمیکل کی چھوٹی بوتلوں پر مشتمل گشتی لیبارٹری اور وزن کے لئے چھوٹی سی ترازو بھی ساتھ لئے گھومتے تھے۔ بھائو تائو کے بعد وہ اوڑھنی اسے دے دی جاتی،پھرستر کی دہائی سے فیشن اپنے طور طریقے بدلنے لگا، تو تحفہ دینے والوں کی محبت کے زاویئے بھی بدلنے لگے۔اب سونے ،چاندی، اور محبت کے تاروں بھری یہ اوڑھنی قصہ پارینہ بننے لگی۔تو ایسے میں ’’جونا زری ‘‘ کی صدائیں بھی خاموش ہو گئیں۔(جاری ہے)

تازہ ترین