• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماجد نظامی

حافظ شیراز قریشی، وجیہہ اسلم

فیض سیفی، عبداللہ لیاقت

صوبہ پنجاب میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کا ترمیم شدہ مسودہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے منظور کرلیا۔بلدیاتی نظام جہاں اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی یقینی بنائی جاتی ہے وہیں پرانے مقامی حکومتوں کے نظام کے تقابل میں بہت سے نئے سوالات بھی جنم لیتے ہیں ۔ 

ایوب خان کا بی ڈی سسٹم ہویا مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام عوام میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لاناممکن نہیں ہوسکا اور سیاسی فوائد ہی حاصل کئے گئے۔ ضلعی حکومتوںکے نظام کے تحت ضلعی حکومتوں کو زیادہ تر امور میں بااختیار کیا گیا۔سوال یہ ہے کہ اآمریت کے دور میں بلدیاتی انتخابات کیوں کروائے گئے ؟ اور کیا مقامی حکومتوں کا نظام اقتدار کو نچلی سطح پر منتقلی کیلئے قائم کیاجاتاہے یا پھر اقتدار کو طول دینے کی کوشش تھی؟

مارشل لا ء ادوار میںمقامی حکومتوں کے نظام میں زیادہ تر ذاتی فوائد برسر اقتدار فوجی قیادت نے اپنی اقتدار کی طوالت کیلئے حاصل کئے ،دوسری جانب سیاسی جماعتیں اپنے دور اقتدار میں بلدیاتی انتخابات کروانے سے گزیز کرتی رہیں۔پاکستان مسلم لیگ نواز نے 2015ء میں بلدیاتی الیکشن کروائے اور یہ کہاجائے تو نے جا نہ ہوگا کہ ن لیگ نے سیاسی تنظیم سازی اسی دور میں کی ۔

دوسری بڑی سیاسی جماعتیں اس ضمن میں کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکیں۔ 2013ء میں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کرایا گیاجو خیبر پختونخوا میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کی شکل میں نافذ العمل ہوا۔ مشرف کے مقامی حکومتوں کے مقابلے میں اس ایکٹ کی خاص بات ویلج کونسل کی شکل میں چھوٹے اور بنیادی یونٹ کا قیام تھا۔

پی ٹی آئی کا ایکٹ اس لئے بھی منفرد تھا کیونکہ پہلی مرتبہ گائوں کو بنیادی یونٹ کو اہمیت دی گئی اور براہ راست فنڈ ملے۔نئے نظام لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کو کے پی کے سے مماثلت رکھتے ہوئے تحریک انصاف نے پنجاب میں نفاذ کا فیصلہ کیا اور اختیارات کی ایک نئی جنگ کاآغاز کر دیا گیا۔ انتظامی اختیارات ڈسٹرکٹ چیئرمین سے لیکر بیوروکریسی کے ہاتھ دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس نظام کے مطابق بلدیاتی ادارہ ضلع کونسل کو ختم کر دیا ہے اور اختیارات اور وسائل کو شہر کی سطح پر میٹرو پولیٹن / میونسپل کارپوریشن/میونسپل کمیٹی/ ٹائون جبکہ دیہاتی علاقوں میں تحصیل کونسل کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

نئے پیش کردہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ پنجاب 2019ء میں پہلی مرتبہ دیہات میں پنچایت جبکہ شہروں میں نیبرہڈ (محلہ کونسلیں) بنائی جائیں گی۔ خیبر پختونخوا کی طرح پنجاب کی ویلج کونسل کو پنچایت کا نام دیا گیا ہے۔ یوں ہر گائوں براہ راست حکومتی فنڈنگ سے مستفید ہوگا۔ آبادی کی بنیاد پر حکومت گرانٹ کا تعین کر ے گی اور ہر سال یہ گرانٹ ترقیاتی کاموں کیلئے پنچایت/ویلج کونسلوں کو ملا کرے گی۔نئے ایکٹ میں اقتدار اور فنڈ کو نچلی سطح پر منتقلی کی کوشش تو کی گئی مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ ضلع کونسل کا خاتمہ کیوں کیا گیا؟ 

خیبر پختونخوا اور پنجاب میں قبل ازیں ضلع کونسلیںقائم تھیں جو اب نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت نہیں بن سکیں گی۔ لوکل گورنمنٹ کے تناظر میں دیکھنا ہوگا کہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ختم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ضلع کی سطح پر جو امور نمٹائے جائیں گے اسکادائرہ کار کس کے سپرد ہوگا؟ اگر یہ صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آئے گا تو پھر کیا اختیارات کی عدم مرکزیت کا فلسفہ بیکار ہوگا؟ ضلع کونسل کے خاتمے کے علاوہ نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نظام کیسا ہوگا۔

شہر اور دیہات کی تقسیم:

حکومت پنجاب نے پنجاب کے شہری اور دیہی علاقوں میں بلدیاتی نظام کیلئے دو مسودے تیار کیے ہیں۔ پہلے مسودے کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 جبکہ دوسرے کو پنجاب ویلج پنچائیت اینڈ نیبرہوڈ کونسل ایکٹ2019 کا نام دیا گیا ہے۔ ایکٹ کے مطابق اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد حکومت چھ ماہ کے اندر تمام علاقوں کی حد بندی نئے سرے سے کرے گی اور کارپوریشنز اور کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایاجائے۔ 

شہری علاقوں میں بلدیاتی اداروں کے چار بنیادی درجے ہوں گے جو اس سے قبل تین سطحی نظام تھا۔نئے ایکٹ کے مطابق گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، ساہیوال، بہاورلپور، ڈیرہ غازی خان ،سرگودھااور لاہورمیں میٹروپولیٹن کارپوریشنز بنائی جائیں گی۔ یعنی صوبے میں کل نو میٹروپولیٹن کارپوریشنز بنیں گی۔مقامی حکومتوں کا دورانیہ پانچ سال ہوگا۔

ویلج اینڈ نیبرہوڈ کونسلز:

ماضی کے تمام ماڈلوں میں دیہی آبادی کیلئے ضلع کونسلوں میں ضلعی حکومت کا تصور موجود تھا تاہم نئے بلدیاتی نظام میں ضلع کونسلز موجود ہی نہیں ہیں۔نئے ایکٹ کے تحت ویلج کونسلز اور تحصیل کونسلز متعارف کروائی جائیں گی ۔دوسری جانب پنجاب ویلج پنچائیت اینڈ نیبرہوڈ کونسل ایکٹ 2019 کے مطابق نیبرہوڈ کونسلز ان شہری علاقوں میں بنائی جائیں گی۔حکومت نے20 سے25 ہزار آبادی کے حامل نیم شہری قصبوں کو نیبر ہوڈ کونسلز کا نام دیاہے اور ان کا تحصیل کونسلوں اور میٹروپولیٹن کارپوریشن یا مونسپل کمیٹیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

نیبر ہوڈ کونسل کے ارکان کی تعداد پانچ سے آٹھ ہوگی جبکہ ویلج کونسل کے ممبران کی تعداد تین سے پانچ ہوگی۔ پنچائیت اور نیبرہوڈ کونسل کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے اورترمیم کے بعد پینل بناکر الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی۔ ولییج اینڈ نیبر ہوڈ کونسل کادورانیہ چار سال ہوگا۔ پنجاب میں پہلے سے موجود 32 سو 81 یونین کونسلز کی جگہ اب 22 ہزار ولیج کونسلز بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔

مقامی حکومتوں کے مالی معاملات کی نگرانی :

مالی معاملات کی نگرانی ایکٹ کے نفاذ کے چھ ماہ کے اندر پنجاب حکومت13 افراد پر مشتمل ایک فنانس کمیشن بنائے گی جسے لوکل گورنمنٹ فنانس کمیشن کا نام دیا جائے گا۔ پنجاب کا وزیر خزانہ اس کمیشن کا چیئرمین جبکہ وزیر بلدیات اس کا شریک چیئرمین ہوگا۔

اہم بات یہ ہے کہ اس کے علاوہ مقامی حکومتوں کے چار سربراہ بھی کمیشن کا حصہ ہوں گے جن میں سے دو کا چناؤ میٹروپولیٹن کارپوریشنز، میونسپل کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیز اور ٹاؤن کمیٹیوں کے سربراہان میں سے ہوگا جبکہ دو کا چناؤ تحصیل کونسلزسے قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جائے گا۔

لوکل گورنمنٹ کمیشن:

مقامی حکومتوں کے روزمرہ کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے چھ ماہ کے اندر ایک لوکل گورنمنٹ کمیشن بنایا جائے گا۔ صوبائی وزیر بلدیات اس کا چیئرمین ہوگا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب اور حزب اختلاف کی جانب سے اپنی اپنی جماعت کے نامزد دو ارکان صوبائی اسمبلی اس کمیشن کے رکن ہوگے۔

انسپکٹریٹ آف لوکل گورنمنٹ:

مقامی حکومتوں کے کام کی نگرانی اور رپورٹنگ کے لیے صوبائی سطح پر ایک 'انسپکٹریٹ آف لوکل گورنمنٹ' بنایا جائے گا جس کا سربراہ انسپکٹر جنرل کہلائے گا۔

پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے الگ کمیشن:

پنجاب حکومت صوبے کے ہر ضلع میں کم از کم پانچ افراد پر مشتمل ایک پلاننگ بورڈ بنائے گی جس کا سربراہ متعلقہ مقامی حکومت کا چیف آفیسرہوگا جبکہ اس کاساتھ تعمیراتی کام کا تجربہ رکھنے والا ایک ماہر انجینئر دے گا۔

ترمیم کے بعد اس ایکٹ میں سیاسی جماعت یا انتخابی گروپ بنا کر بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی گویا یہ جماعتی الیکشن ہو گا۔یہ بھی کہاگیااقلیتوں کو مخصوص نشستوں کے ساتھ جنرل نشستوں پر بھی ووٹنگ کا حق دینے کی منظوری دی گئی۔ترمیم میں یہ بھی شامل کیا گیا جس کے مطابق پنجاب بھر میں 455 مقامی حکومتیں بنیں گی۔

بلوچستان ایکٹ 2019

بلوچستان بلدیاتی ایکٹ 2019 بعض موثر ترامیم کے بعد منظور کر لیا گیا۔2013ء میں بلوچستان میں ملک کے دیگر صوبوں سے پہلے بلدیاتی انتخابات کروائے گئے جو کہ اپنی مقررہ مدت 4سال مکمل ہونے کے بعد 2017ء کو مقامی حکومت تحلیل ہو گئی ۔قانونی طور پر تو آئین کے آرٹیکل 140 (A) اور الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 219(4) کے تحت صوبوں میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے بعد120 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 

بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی ایک وجہ2017ء میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں بنیں جس کے باعث مقامی حکومت کیلئے بھی نئی حلقہ بندیاں کے تحت انتخابات ہونا لازم و ملازم تھے ۔نئے بلدیاتی ایکٹ کی اگر بات کریں تو اس میں واضح تبدیلیاں نظر آئیں گئی جن کی تفصیل کچھ یوں ہے اسسٹنٹ کمشنر اور ٹی ایم او تحصیل ناظم(چیئرمین) کے ماتحت ہوں گے۔

اگر انکی ذمہ داریوں کی بات کریں تو اسسٹنٹ کمشنر اور ٹی ایم او تحصیل ناظم(چیئرمین) کو جوابداہ ہونگے۔ اسسٹنٹ کمشنر سوشل سروسز ایڈمنسٹریشن جبکہ ٹی ایم او میونسپل سروسز میں اداروں کی رپورٹ تحصیل ناظم کو پیش کریں گے۔ضلع ناظم کی جگہ تحصیل ناظم مقامی حکومت کا سربراہ ہے جبکہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ایجوکیسن،محکمہ صحت(بی ایچ یوز،آر ایچ سیز اور تحصیل ہیڈ کوآٹرز)، سوشل ویلفیئر،س پورٹس، کلچر،یوتھ افیئرز،محکمہ زراعت،محکمہ بہبود آبادی، میونسپل سروسز، واٹر سپلائی اینڈ سینینٹیشن کمپنیز، دیہی ترقی، ٹی ایم ایز،پبلک ہیلتھ، پلاننگ، فنانس،ہیومن ریسورس اور دیگر محکمہ جات براہ راست تحصیل ناظم کے ماتحت ہوں گے ۔

نئے ایکٹ میں ویلج کونسل کو شامل کیا گیا ہے اور حلقہ بندیوں کے بعد ویلج کونسل کی کم ازکم آبادی 8ہزار سے لے کر زیادہ سے زیادہ 20ہزار تک ہو گی۔ ویلج کونسل کے ممبران کی تعداد 4یا 5ہوگی اور جن میں2 جنرل جبکہ خاتون، یوتھ، کسان اور اقلیتی(جہاں ہو) ممبر ہو گا جبکہ جنرل کونسلرز میں زیادہ ووٹ لینے والا ویلج ناظم بھی ہو گا اورتحصیل کونسل کا ممبر بھی تناسب کے حساب سے ویلج کونسل سے زیادہ ووٹ لینے والی خواتین مخصوص نشست پر تحصیل ممبر منتخب ہوں گی۔تحصیل ناظم تحصیل لوکل گورنمنٹ کے سربراہ جبکہ ویلج ناظم تحصیل کونسل کے ممبر ہوں گے۔

نئے نظام کے تحت ویلج کونسل اور شہروں میں محلہ کونسل کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر جبکہ تحصیل اور میونسپل سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوگا۔تحصیل لوکل گورنمنٹ کا ناظم پارٹی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے گا جبکہ ویلج کونسل کے الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔نئے بلدیاتی بل کے مطابق مقامی حکومتوں کی مدت چار سال ہو گی۔ شہروں میں میونسپل اور محلہ کونسل اور دیہات میں تحصیل اور ویلیج کونسل ہوگی۔ویلج کونسل اور محلہ کونسل میں زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین ہوگا۔ بلدیاتی اداروں میں ایک سال کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے۔


تازہ ترین