• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈکٹیٹر شپ کے ادوار ختم ہونے کے بعد، پاکستان میں جمہوریت کی بھی بار بار ناکامی کی بڑی وجہ آئین کا عدم اطلاق رہی ہے۔ اگر ملک میں انتخابات روایتی سیاسی جماعتوں کی شخصیت اور مزاج کے مطابق جیسے تیسے ہونے کی بجائے، آئین کے مطابق ہوتے اور منتخب حکومتیں بھی اس کے مطابق چلتیں تو کوئی وجہ نہ تھی کہ 1988 سے 1999 تک جمہوریت کا جو عشرہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور سیاسی جماعتوں کے کھلنڈرے پن سے لاغر جمہوریت کا سبب بنا، اس کی جگہ پاکستان آج دنیا کی اہم جمہوریت نہ بن چکا ہوتا، جسے بھارت (اور شاید اس سے بھی زیادہ) کی طرح پوری دنیا تسلیم کرتی۔ آج چھوٹی بڑی جماعتیں پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو ٹھہراتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے دونوں طرف کے عوامی لیڈر کیا کوئی عوام نے بنائے، یہ تو دو مارشل لاؤں کی پیداوار تھے، بعد ازاں حکمرانی موروثی ہوتی چلی گئی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرتی رہی تو اسے قبول کون کرتا تھا؟ خود سیاسی جماعتیں یا بچارے ان کے وہ ووٹرز جو اپنا کندھا دے کر سیاست دانوں کو اقتدار میں لاتے اور خود پھر محرومیوں کے دائرے میں بند ہو جاتے ہیں امر واقعہ تو یہ ہے کہ جاری اسٹیٹس کو میں روایتی دائیں بازو کی جماعتیں تو ایجنسیوں کی ہر طرح کی مداخلت کی قبولیت کو ہی اپنی اصل طاقت سمجھتی تھیں، دوسری جانب پیپلز پارٹی اپنی بیڈ گورننس، پارٹی پر خاندانی غلبے، اقربا پروری اور دھڑلے سے لوٹ مار سے آگے نہ جا سکی۔ ایک کلہاڑا اس کے پاس ”سندھ کارڈ“ کا رہا اب پھر جعلی ڈگریاں بنانے والوں کو جعلسازی کے الزام سے بچانے کے لئے ایچ ای سی پر کلہاڑا چلا کر سندھ کا علیحدہ ایچ ای سی بنانے کا بل صوبائی اسمبلی سے چوروں کی طرح منظور کر لیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پی پی بغیر کسی نظریئے اور پروگرام کے فقط بھٹو اور سادہ لوحوں میں ان کی گہری عقیدت اور 1970 کے نعروں پر ہی اقتدار کی پانچ باریاں لے گئی۔ اسی میں اس نے کرپشن کو کلچر بنا دیا اور کلچر کو جاگیردار ہی رکھا۔ 1988-99 میں وردی والی جو جمہوریت قوم نے دیکھی، اس کی ذمے داری ان ہی روایتی سیاسی جماعتوں کے غیرجمہوری اور غیرآئینی رویئے پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے آئین کی اصلی حالت میں بحالی کا جتنا شور مچایا اس سے زیادہ اپنی حکومتیں قائم ہونے اور انتخابات کے انعقاد میں آئین کی خلاف ورزیاں کیں۔ سب سے بڑھ کر خلاف ورزی آئین کی آرٹیکلز 62-63 کی ہوئی جس کا اطلاق مطلو بہ معیار کے منتخب امیدوار کے لئے ناگزیر ہے لیکن سیاسی حکومتوں نے اسے معطل رکھا اس کی جگہ جو جو ”تحفے“ انہوں نے عوام کی نمائندگی کے لئے پیش کئے، اس سے جمہوریت اور عوام کی خدمت کی جانب ان کی ذہنیت بالکل بے نقاب ہو گئی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت تو رہی ایک طرف پیپلز پارٹی کو آئینی مدت کے ساتھ اقتدار کی ایسی باری نصیب ہوئی کہ اس کا یہ دور اپوزیشن کی مطلوبہ مداخلت سے بھی فری تھا، لیکن پیپلز پارٹی کا یہ اتنا بڑا نصیب قوم کی اتنی ہی بڑی بدنصیبی بن گئی۔ اب اس کا رونا دھونا کتنی بار کریں، الیکشن قریب ہے سو، آنے والے وقت کی بات ہونی چاہئے۔ یہ امر خوش کن ہے کہ اس مرتبہ الیکشن میں میڈیا، عوام اور خود الیکشن کمیشن صرف روایتی انداز میں غیر جانبدار اور شفاف انتخاب کے انعقاد کی بات نہیں کر رہے بلکہ آئین میں اس کے تقاضوں کو سمجھا جا رہا ہے اور انہیں ہی اختیار کرنے کی بات کی جا رہی ہے اور یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں۔ ایک تازہ ہوا کا جھونکا جناب میاں نواز شریف کی اس گفتگو کی شکل میں آیا ہے جو انہوں نے لاہور میں اپنے سابقہ محلے گوالمنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئی کی۔ میاں صاحب کا یہ کہا بہت اہم ہے کہ ”آئین کی آرٹیکل 62-63 پر عمل ہونا چاہئے، ن لیگ صادق اور امین افراد کو ہی ٹکٹ دے گی۔ بعض ایسے لوگ ہیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں، انتخابی امیدواروں کی خود چھان بین کریں گے۔“ یہ بات زبانِ زد عام ہے کہ میاں صاحب کے سیاسی ابلاغ میں خاصی میچورٹی آ گئی ہے۔ یہ تو صحت مند جمہوری عمل کی ایک بنیادی ضرورت ہے، لیکن آپ نے اپنے متذکرہ بیان میں جو یقین دہانی کرائی، اگر آپ یہ کر گزرے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور اسی نقش پر چلنے والی اور جماعت آنے والے انتخابات میں سرخرو نہ ہو۔ پیپلز پارٹی کو اس کے پانچ سال میں کئے کے مطابق ٹھکانے لگانے کا سب سے بنیادی تقاضا یہ ہی ہے کہ سیاسی منظر پر غالب مقابل پارٹیاں عوام کی نمائندگی کے لئے اپنی پارٹی سے دیانت دار، اہل اور حالات و واقعات کو سمجھنے والے اور اس کے مطابق ملک اور پارٹی کی خدمت کرنے والے امیدوار الیکشن میں اتاریں۔ ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف میں بھی نو دولتیوں اور دو نمبریوں کے آنے سے بھگڈر سی مچی ہوئی ہے۔ خاں اعظم اب تک تو اس پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ اس کا علاج انہوں نے پارٹی کے انتخاب سے نکالنے کی جو کوشش کی ہے، وہ علاج نہ نکلے۔ بہت کھرے کھرے مخلص اور اہل کارکن اور حامی یہ کہتے سنے جا رہے ہیں کہ پارٹی کے اندرونی انتخاب میں بھی پیسہ کام دکھا رہا ہے۔ ایسے میں اگر میاں صاحب نے گزشتہ انتخابات میں برائلر کو چھان کر مطلوبہ امیدواروں کو انتخاب جتا کر اسمبلیوں میں پہنچانے کا کفارہ ادا کر دیا، اور اپنے پرانے محلے داروں میں جو وہ کمٹمنٹ کر آئے ہیں، وہ پوری کر دی تو یقین کیجئے کہ یہیں سے ملکی حالات میں بہتری آنے کا مطلوبہ عمل شروع ہو جائے گا۔ لیکن میاں صاحب اپنی یقین دہانی کے لئے کوئی دوچار معیاری امیدوار ہی علامتی طور پر نہ لائیں بلکہ تازگی کو ملک گیر سطح پر اختیار کیا گیا تو ہی خود انہیں، پارٹی، جمہوریت اور ملک کو اس کا بے حد فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان کے تمام حلقہ ہائے انتخاب میں کوئی ایک ایسا حلقہ نہیں، جہاں مطلوبہ معیار کے مطابق ایک نہیں کتنے ہی امیدوار موجود نہ ہوں۔ اصل بات نیک نیتی، ہمت، حقیقی اور مطلوبہ تبدیلی کے جذبے اور پاکستان کو عوام کا پاکستان ہی سمجھنے کی ہے تمام ہی جماعتوں پر الیکشن کمیشن اور عوام کو جلد تاریخی موقع ملنے کو ہے، کہ وہ اپنی کوتاہیوں، غلطیوں اور دانستہ و نادانستہ قومی جرائم کا کفارہ ادا کر کے، چاہتے ہیں تو پاکستان کو تاریک گڑھے سے نکال کر روشنیوں میں لے جائیں، جہاں روشنی، بیداری، شعور اور قومی جذبے سے ہوتی ہے ناکہ رینٹل پاور یونٹس سے جس سے حکمرانوں کو رشوت اور کمیشن ملتا ہے اور قوم کو اندھیرا ہی اندھیرا۔
تازہ ترین