• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ دنوں میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی وفاقی کابینہ سے منظوری اور گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کے جرأت مندانہ اقدامات کو حکومت کے آخری اوور میں لگائے گئے 2 چھکوں سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ حکومت کا پہلا چھکا وہ اقدام ہے جس کے تحت حکومت نے گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے گوادر پورٹ کو آپریٹ کرنے اور اس کی ترقی کا کنٹریکٹ چین کی سرکاری فرم ”چین اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی“ کو دے دیا گیا۔ معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ معاہدے کی تقریب میں صدر آصف زرداری، وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور پاکستان اور چین کی اعلیٰ حکومتی شخصیات شریک تھیں۔ ابھی پاک چین معاہدے کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ بھارتی حکومت نے پاکستان کے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے بیان دیا کہ ”گوادر پورٹ کے آپریشن میں چین کا کردار بھارت کیلئے باعث تشویش ہے“ جبکہ بھارتی دفاعی تجزیہ نگاروں کا بھی یہ کہنا تھا کہ”معاہدے کے نتیجے میں یہ بھی امکان ہے کہ چین کی بحریہ بھی گوادر پورٹ کو استعمال کرے گی“۔ بھارت کے ان خدشات سے گوادر پورٹ کی اسٹریٹجک اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
گوادر پورٹ پاکستان کی تیسری بڑی گہرے پانی کی بندرگاہ ہے جو 2008ء میں مکمل طور پر آپریشنل ہوئی، سیکڑوں چینی انجینئرز اور ہزاروں پاکستانی محنت کشوں نے دن رات محنت کرکے اسے قلیل مدت میں مکمل کیا۔ گوادر آبنائے ہرمز سے تقریباً 180 میل کے فاصلے پر واقع ہے جہاں سے دنیا کی تیل کی تجارت کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ گزرتا ہے۔ پورٹ کے آبنائے ہرمز کے قریب ہونے کے باعث خلیج عرب کی پاکستان کے ذریعے مشرقی چین سے تجارت کا نیا دروازہ کھلے گا اور پاکستان کو ریونیو کی مد میں اربوں ڈالر حاصل ہوں گے جبکہ اس سے 20 لاکھ سے زائد افراد کو روزگار بھی ملے گا۔ واضح ہو کہ چین نے گوادر کے250 ملین ڈالر کے منصوبے میں 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جسے چین کی جنگی اور اسٹریٹجک حکمت عملی بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ چین اپنی مغربی بندرگاہوں کا بوجھ کم کرکے ترقی کے ثمرات اپنی مشرقی بندرگاہوں پر دینا چاہتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین کی مشرقی سرحدوں کا فاصلہ اس کی مغربی سرحدوں سے 3000 کلومیٹر سے بھی زائد ہے جبکہ گوادر پورٹ کا فاصلہ اس کی مشرقی سرحدوں سے صرف تقریباً 1000 کلومیٹر ہے۔
گوادر پورٹ پاکستان کیلئے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1971ء کی جنگ میں بھارتی بحریہ کی پوری کوشش تھی کہ کراچی پورٹ کی ناکہ بندی کرکے پاکستان کو رسد کی فراہمی بند کردی جائے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔ واحد بندرگاہ ہونے کی وجہ سے دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب بھی ہوسکتا تھا لہٰذا اس خطرے کے پیش نظر پاکستان کو کراچی کے علاوہ ایک اور بندرگاہ کی اشد ضرورت تھی۔ گوادر پورٹ بھارتی سرحد سے 450 کلومیٹر دور ہے اس لئے اب بھارت کی بلیو واٹر نیوی کیلئے ممکن نہیں کہ وہ گوادر پورٹ کی ناکہ بندی کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کیلئے گوادر پورٹ کی اسٹریٹجک اہمیت کو دیکھتے ہوئے شروع دن سے ہی پورٹ کی تعمیر کے خلاف سازشیں کی جانے لگیں اور بلوچستان کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ پورٹ کی تعمیر کے دوران کئی پاکستانی اور چینی انجینئروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا جو دہشت گردوں کی کارروائیوں کی بھینٹ چڑھ گئے جبکہ حالیہ معاہدے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں خطرناک حد تک تیزی آئی ہے۔
حکومت کا دوسرا چھکا اور جرأت مندانہ فیصلہ بیرونی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کی وفاقی کابینہ سے حتمی منظوری حاصل کرنا تھا۔ کابینہ نے پائپ لائن منصوبے کو قومی مفاد کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے اسے 2015ء تک مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی۔ اس منصوبے کی تکمیل کیلئے ایران نے پاکستان کو 500 ملین ڈالر کا قرضہ فراہم کیا ہے تاہم حکومت کی اس اہم پیشرفت پر امریکہ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ ”اگر پاکستان نے ایران سے گیس کی خریداری شروع کی تو اس پر اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں“۔ میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا ہمیشہ سے بڑا حامی رہا ہوں اور اس سلسلے میں اپنے کئی کالمز میں اس موقف پر زور دیتا رہا ہوں کہ پاکستان میں انرجی کے موجودہ بحران کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہی بحران کا فوری حل ہے جسے پاکستان کو کسی بیرونی دباؤ میں آئے بغیر جلد از جلد مکمل کرنا چاہئے۔ ہمیں مستقبل میں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ امریکہ اقوام متحدہ کا سہارا لے کر پاکستان پر دباؤ بڑھائے گا کہ ہم کسی طرح اس منصوبے سے دستبردار ہوجائیں مگر ہمیں امریکہ پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ملکی معیشت کی بہتری اور اسے اندھیروں سے نکالنے کیلئے اشد ضروری ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان مزید اندھیروں میں ڈوب جائے گا، صنعتیں بند ہوجائیں گی اور بیروزگاری بڑھنے کے سبب جرائم اور دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں امریکہ کو یہ بھی باور کرانا ہوگا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایران پر پابندیاں عائد ہونے سے قبل طے پایا تھا لہٰذایہ منصوبہ پابندیوں کے زمرے میں نہیں آتا۔ واضح ہو کہ امریکہ بھارت کی انرجی کی ضروریات کیلئے اسے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کرچکا ہے جبکہ امریکہ نے دوٹوک الفاظ میں پاکستان پر یہ واضح کردیا ہے کہ وہ پاکستان سے اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں کرسکتا۔ اگر امریکہ پاکستان کا اتنا ہی خیر خواہ اور سچا دوست ہے تو مجھے امید ہے کہ وہ اس منصوبے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ یاد رہے کہ ایران پر عائد پابندیوں کے باوجود انڈیا اور چائنا ایران سے اپنی ضروریات کا تیل حاصل کررہے ہیں کیونکہ یہ ممالک امریکہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ ایران سے اپنی ضروریات کا تیل حاصل کئے بغیر شدید مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں جبکہ پاکستان کا کیس ان دونوں ممالک سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور امریکہ کو قائل کرنے کیلئے امریکہ میں پاکستانی سفیر شیری رحمن اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
ہم جہاں حکومت کی خامیوں پر تنقید کرتے ہیں وہاں ہمیں حکومت کے اچھے اقدامات کو بھی سراہنا چاہئے۔ میرے نزدیک موجودہ حکومت کے آخری دنوں میں کئے گئے یہ دو جرأت مندانہ فیصلے یقینا قابل تحسین ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ حکومت بھی اس سلسلے میں امریکی دباؤ خاطر میں نہیں لائے گی۔ دنیا میں وہی قومیں کامیاب رہتی ہیں جو جرأت مندانہ فیصلے کرتی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت کے حصول اور ایٹمی دھماکے کے وقت بھی شدید دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا تھا مگر وقت نے ثابت کیا کہ ہمارا اپنے موقف پر ڈٹے رہنا سود مند ثابت ہوا اور ہم آج ایک ایٹمی طاقت ہیں۔ آج ایک بار پھر وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان ماضی کی طرح جرأت مندانہ بہادری کا ثبوت دے اور کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنے فیصلے پر ڈٹا رہے کیونکہ اسی میں ملک و قوم کی فلاح ہے۔ مجھے امید ہے کہ حکومت کے لگائے گئے یہ 2 چھکے شارجہ میں لگائے گئے جاوید میانداد کے چھکے ثابت ہوں گے جو پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔
تازہ ترین