• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: حافظ عبدالاعلی درانی۔۔ بریڈفورڈ
بادشاہی مسجد لاہور کی بلند و بالا عمارت اور اس مسجد کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکاہے۔ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بصیرت و آگہی اور مسلمانوں سے محبت کے پیشِ نظر بادشاہی مسجد کی تعمیر لاہور میں ہوئی۔ بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی دوسری بڑی مسجد ہے۔ اسے دنیا کی پانچویں بڑی مسجد میں شمار کیا جاتا ہے، مسجد حرم،مسجد نبوی،مسجد حسن دوئم کاسا بلانکا، فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد اسی کا نمبر ہے ۔فیصل مسجد بننے سے قبل اس کا شمار پاکستان کی سب سے بڑی مسجد میں کیا جاتا تھا۔اس میں دس ہزار نمازی اندر اور دس ہزار صحن میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔یہ 1673 ء سے 1986 ء تک دنیا کی سب سے بڑی مسجد رہی،اس کا صحن دنیا کی مسجدوں میں سب سے بڑا صحن ہے،اس کے مینار تاج محل کے میناروں سے13 فٹ9 انچ زیادہ اونچے ہیں۔مسجد کا صحن 278,784 مربع فٹ وسیع ہے جس میں تاج محل کا پورا پلیٹ فارم سما سکتا ہے۔ بادشاہی مسجد لاہور چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے بنوائی تھی،اس کی تعمیر مئی1671ء میں شروع ہوکراپریل 1673ء میں مکمل ہوئی،تعمیرِمسجد کی دیکھ بھال اورنگزیب عالمگیر کے رشتہ کے بھائی مظفر حسین (فدائی خان کوکا)نے کی،مظفر حسین1671ء تا 1675ء لاہور کاگورنر رہا،مسجد کو اورنگزیب عالمگیرکے حکم پرقلعہ لاہورکے بالکل سامنے بنایاگیا تاکہ بادشاہ کو آنے جانے میں آسانی رہے،اس بات کیلئے قلعہ میں ایک دروازہ مزیدبنایاگیا جو عالمگیری دروازے کے نام سے منسوب ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں اس مسجد کا بڑا غلط استعمال ہوا، پوری مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل اور اسلحہ خانہ بنا دیا گیا، چاروں میناروں کے گنبد توپوں کیلئے استعمال کئے گئے جس سے ان کو سخت نقصان پہنچا،انگریزوں نے جب سکھوں کو شکست دی تو مسجد کے استعمال کو بھی بحال کیا، اصطبل اور اسلحہ خانہ قلعہ میں منتقل کیامگر مسلمانوں سے ان کوخدشات لاحق تھے اسلئے مسجد کی ایک بڑی دیوار منہدم کردی تاکہ مسلمان مسجد کو قلعہ کے طور پراستعمال نہ کرسکیں۔ 1852عیسویں کے بعد مسجد کی مرمت کا کام شروع ہوا اور مسجد میں نماز کے اجتماعات جاری ہوئے۔ 1939ء سے1960ء تک اس مسجد میں مرمت ہوتی رہی اور تقریباً پچاس لاکھ روپیہ خرچ ہوا، یہاں تک کہ مسجد اپنی اصلی حالت میں آگئی۔ مرمّت کا کام زین یار جنگ بہادر کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا۔22 فروری1974ء میں دوسری اسلامی کانفرنس کے موقع پر 39اسلامی ممالک کے سر براہوں نے یہاں پر نمازِ جمعہ ادا کی، مولانا عبدالقادر آزاد خطیبِ مسجد نے امامت کی، اس مسجد کے صدر دروازے کے قریب ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی ہے جس میں حضوراکرم ﷺ،حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی طرف سے منسوب تبرکات رکھے ہوئے ہیں۔سن2000ء میں کچھ مرمت اور تزئین کا کام دوبارہ شروع ہوا،سنگِ مر مر کے ٹائلز لگائے گئے اور2008 ء میں صحن میں سرخ پتھر کے ٹائلز لگائے گئے۔یہ پتھرپرانے پتھروں کے مماثل راجھستان( بھارت) سے منگوائے گئے تھے۔ بادشاہی مسجد لاہور کا ڈیزائن جامع مسجد دہلی کی طرز پرہے جس میں اسلامی،ایرانی،مشرقِ وسطیٰ اور ہندوستانی عمارت کاری کے ملے جلے اثرات پائے جاتے ہیں۔صدر دروازے کی سیڑھیاں سنگِ علوی کی ہیں جو سنگِ مر مر کی ایک قسم ہے،اصل مسجد کی چھت سات مختلف حصوں میں تقسیم کی ہوئی ہے جو محرابوں پر مشتمل سات گنبدوں سے پاٹی گئی ہے،بیچ کے تین گنبد دوہری اونچائی کے ہیں جب کہ بقیہ چار گنبد چپٹی شکل کے ہیں۔بیچ کے تینوں گنبد سفید سنگِ مر مر کے ہیں۔مسجد کا صدر ہال جہاں امام کھڑا ہوتا ہے،منبت کاریStucco کی بہترین مثال ہے، دیواروں اور چھت کی روغنی تزئین Fresco اور سنگِ مر مر کا inlaid کام بہت عمدہ کیا ہوا ہے۔بیرونی دیواروں پر سنگِ سرخ پر سنگِ مر مر کا چھلائی اور کارنسوں کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے،سنگِ مر مر کی جڑائی کا کام بھی بہت صفائی سے کیا گیا ہے،پھول پتوں میں کنول کے پھول سفید سنگِ مر مر سے سرخ پتھر میں پیوست کئے گئے ہیں۔ پھولوں کے ڈیزائن ہندی، یونانی،وسطی ایشیاء اور ہندی عمارت کاری سے مشابہت رکھتے ہیں ۔مغل نقش و نگار اور شایانِ شان عمارت کاری میں توازن Symmetry کا بڑا خیال رکھا جا تا تھا،اسی لحاظ سے شمال اور جنوب میں دروازے نہیں بنائے گئے کیونکہ شمال میں راوی بہتا تھا،دروازہ نہیں بن سکتا تھااس لئے جنوب میں بھی دروازہ نہیں بنایا۔دیواریں سرخ اینٹوں سے چونے کے گارے کے ساتھ بنائی گئی ہیں، اصل فرش سرخ اینٹوں سے بنایاگیا تھا بعد میں مرمت کے وقت سنگِ سرخ استعمال کیا گیا،صدر ہال میں جو سنگِ مر مر استعمال کیا گیا ہے اسے ”سنگِ ابری” بھی کہتے ہیں۔قرآنی آیات صرف دو جگہ لکھی گئی ہیں،ایک صدردروازہ پر اور دوسری جگہ محراب و منبر کے اوپر کلمہ لکھاہوا ہے۔ بادشاہی مسجد آج بھی مغلوں کی عظمت کی گواہی اور جاہ و جلال کی تصویر ہے ۔ مغل فنِ تعمیر کا کمال یہ ہے کہ اس کے چاروں گنبدوں پر چڑھ کر چند کلو میٹر دور مقبرہ جہانگیر کے میناروں کو دیکھیں تو صرف تین ہی مینار نظر آئیں گے چوتھا چُھپ جاتا ہے ۔ اس طرح جہانگیر کے مقبرے سے بادشاہی مسجد کے میناروں کو دیکھیں تو وہاں سے بھی صرف تین ہی مینار نظر آتے ہیں ، چوتھا نظر وں سے اوجھل ہی رہتا ہے۔ اس مسجد میں دو مرتبہ خاکسار حافظ درانی کو خطبہ جمعہ دینے کا شرف حاصل ہوا ہے جس پر خطیب مسجد مولانا عبدالخبیر آزاد خاص طور پر شکریئے کے مستحق ہیں ۔
تازہ ترین