• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہالی وڈ میں عالمی شہریت یافتہ اکیڈمی ایوارڈز کی سالانہ ایوارڈز کی تقریب میں امریکی فلم ”آرگو“ (ARGO) کو اس سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ دیا گیا۔ یہ فلم 1980ء میں تاریخی بحران اور انقلاب میں مبتلا پڑوسی ملک ایران میں چھ امریکی سفارت کاروں کو ایران سے بحفاظت نکال کر سوئٹزرلینڈ کے راستے جرمنی اور پھر امریکہ پہنچانے کیلئے ایک امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ کی کوششوں اور کارگزاری کی حقیقی واقعاتی داستان ہے کہ امریکہ کے پڑوسی اور اتحادی ملک کینیڈا کے خفیہ تعاون اور کینیڈین پاسپورٹوں پر ان امریکیوں کو کینیڈا کے فلم میکرز کا روپ دیکر ایران میں ایک فلم بنانے کی لوکیشن کی تلاش کا فرضی ڈرامہ رچاکر ایران سے نکلنے کا مشن تھا۔ امریکی سی آئی اے کے اس مشن کی کامیابی پر ان چھ امریکیوں کے بحفاظت امریکہ پہنچنے پر امریکہ بھر میں کینیڈا کا قومی پرچم لہرا کر کینیڈین تعاون کا شکریہ ادا کیا گیا۔ حقائق اور واقعات پر مبنی یہ فلم پاکستانی ناظرین کیلئے دیکھنا اس لئے مفید ہوگا کہ اس سے یہ حقیقت سمجھنے میں مدد ملے گی کہ خفیہ آپریشنز کیلئے دوسرے ملکوں کے پاسپورٹوں کا استعمال اور تعاون کتنا حقیقی ہے؟ دہری شہریت کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود خدشات کتنے حقیقی اور عملی ہیں؟
ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے پاکستان اور دیگر ملکوں کے راستے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے ایسے بہت سے حقائق اور واقعات سے پردہ اٹھنے کی بڑی توقع ہے اور شاید یہ بھی راز کھل سکے کہ پاکستان سے مایوس ہو کر قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو کر کینیڈا جانے والے علامہ طاہر القادری کو دہری شہریت اور کینیڈین پاسپورٹ کے ملنے پر پاکستان کے 18کروڑ غریب عوام کا خیال اچانک کیسے اور کیوں آگیا؟ جب ان کی ساکھ اور سابقہ ریکارڈ اور ذاتی امیج کے ساتھ ساتھ کمزور موقف پر مبنی درخواست سپریم کورٹ نے مسترد کردی تو پھر اچانک دہری شہریت والے 80لاکھ پاکستانیوں کی عزت اور اہمیت کا خیال آگیا۔ سپریم کورٹ میں اپنی ذاتی ناکامی میں دہری شہریت والے پاکستانیوں کی توہین نظر آگئی حالانکہ علامہ صاحب نہ تو ان کے نمائندہ ہیں اور نہ ہی 18کروڑ پاکستانی عوام کی نمائندگی کے حقدار ہیں۔
لانگ مارچ کی عملی افادیت تو اب علامہ کے بیانات اور اقدامات نے بالکل واضح کردی ہے بلکہ دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد طاہر القادری کے رویّے، حکمت عملی اور دہری شہریت والے پاکستانیوں کا امیج خراب کرنے کی شکایت کررہی ہے۔ دہری شہریت کے حوالے سے عدالتی فیصلوں اور سیاسی و عوامی تبصروں اور بعض دہری شہریت کے حامل سیاستدانوں ، وزیروں اور کرپٹ عناصر نے دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے امیج کیلئے ناخوشگوار ماحول پیدا کردیا ہے۔ حالانکہ دہری شہریت کے حامل اور غیرممالک میں آباد پاکستانیوں کی بڑی اکثریت تو پاکستان کو 12/ارب ڈالرز سالانہ کا زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں جبکہ کرپٹ سیاستدان اور بیوروکریٹ تو پاکستان کی دولت لوٹ کر پاکستان سے باہر لے جاکر غیرملکوں میں ٹھکانے لگانے میں مصروف ہیں۔ ہر کمیونٹی اور معاشرے کی طرح دہری شہریت یا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں گنتی کے چند وہ عناصر بھی ہیں جو پاکستانی کرپٹ سیاستدانوں، حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی کرپشن کمائی کیلئے ”فرنٹ مین“ کا رول بھی ادا کرتے رہتے ہیں مگر یہ افراد صرف چند ہیں۔
پاکستان سے باہر امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دہری شہریت کی اجازت دینے والے یورپی اور دیگر پُرامن ممالک میں آباد پاکستانی اور ان کی نئی نسل خوشحال زندگی اور دہری شہریت کی بدولت کتنی مراعات اور مزے حاصل کرتے ہیں یا اس کی کیا قیمت ادا کرتے ہیں؟ وہ آبائی وطن سے دور دہری شہریت کے حامل ”مظلوم“ ہیں یا ”مجرم“ ہیں؟ اس بارے میں ایک متوازن تجزیہ کرکے ہی آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ دہری شہریت کے حامل پاکستانی آپ کیلئے محض زرمبادلہ کے حصول کا ذریعہ ہیں یا پھر آبائی وطن پاکستان کیلئے قابل احترام و فخر اثاثہ ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہری شہریت کے حامل پاکستانی دو ملکوں میں ووٹ کا حق رکھتے ہیں اور آمدنی ، روزگار ، صحت و علاج اور ایک عمر میں ریٹائر ہوکر نئے وطن میں مالی اور ذاتی تحفظ اور مراعات کا حق پاتے ہیں جوکہ صرف پاکستان کی شہریت کے حامل پاکستانیوں کو نہیں ملتا۔ دہری شہریت والے دونوں ملکوں میں جائیداد خریدنے اور دیگر متعدد مراعات کے یکساں حقدار ہیں۔ عام پاکستانی شہریوں کی نئی نسل کو تعلیم ، تحفظ، روزگار اور وسائل کی وہ صورت دستیاب نہیں جو دہری شہریت والے پاکستانیوں کی دہری شہریت والی نئی نسل کو حاصل ہے اس لحاظ سے دہری شہریت والے پاکستانیوں کو سنگل پاکستانی شہریت والے پاکستانی کے مقابلے میں دہری مراعات ، خوشحالی اور حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن اس کیلئے دہری شہریت والے پاکستانیوں کو سخت محنت ، انتظار، دونوں ممالک کے قوانین کی دہری پابندی، اپنے رشتہ داروں بلکہ خاندانوں سے سالہا سال دور رہ کر مسائل و مشکلات کی چکّی سے گزرنا پڑتا ہے۔ دہری شہریت والے پاکستانیوں کو عملاً دونوں معاشرے شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے اور حب الوطنی کے بارے میں سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
امریکی پاسپورٹ اور شہریت کے باوجود جب کسی پاکستانی کو الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے تو اسے امریکی شہری کے بجائے پاکستانی ہی بیان کیا جاتا ہے۔گزشتہ ہفتے کے ”نیویارک ٹائمنر“ میں دو مختلف رپورٹوں میں گرفتار ہونے والے امریکی شہری ہونے کے باوجود پاکستانی ہی بیان کئے گئے۔ گزشتہ 40سال کے امریکہ و کینیڈا میں قیام کے دوران لاتعداد مرتبہ یہی کچھ دیکھا، سنا اور پڑھا ہے۔ بالخصوص11ستمبر کے سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد تو صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری سلمان ہمدانی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحہ میں اپنے امریکی بھائیوں کو بچانے کا کام کرتے ہوئے موت کا شکار ہوگیا وہ نیویارک فائر بریگیڈ کا حصہ تھا لیکن اس کی موت کے بعد بھی ایک عرصہ تک یہ چھان بین ہوتی رہی کہ وہ کہیں القاعدہ اور دہشت گردوں میں سے تھا یا اس نے امریکیوں کیلئے جان دی؟
کئی سال کے بعد اب سلمان ہمدانی کے خاندان کے مکان کو جانے والی گلی کو سلمان ہمدانی کا نام دیکر امریکیوں کیلئے اس کی قربانی اور حب الوطنی کو مان لیا گیا۔ دہری شہریت والے پاکستانیوں کو کسی قانون شکنی اور سزا کی صورت میں امریکی شہریت منسوخ کرکے پاکستان واپس بھیجا جاسکتا ہے اور ایسا ہوا بھی ہے جبکہ صرف امریکی شہریت کے حامل کسی پاکستانی یا بھارتی کو سزا کے بعد بھی واپس نہیں بھیجا جاسکتا۔ اپنی نئی نسل کو آزاد مغربی معاشرے میں پالتے اور جوان کرکے اسی معاشرے کے حوالے کرنے کا حوصلہ اور قربانی بھی قابل ستائش ہے جبکہ پاکستان میں قبضہ اور کرائم مافیا کے ہاتھوں ہونے والا سلوک الگ داستان ہے۔
تازہ ترین