• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گفتگو ہے کہ اختتام پذیر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی کہ سی پیک پر تازہ ترین صورتحال کیا ہے؟

اس کے وہ کون سے مفادات ہیں کہ جن کے سبب امریکہ بار بار سی پیک کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار پاکستانی مفادات کی آڑ میں کرتا رہتا ہے اور امریکی مخالفت یا تحفظات کو رفع کرنے کی غرض سے ایسے کون سے اقدامات ہیں جو کیے گئے ہیں کہ جن سے چین بھی ناخوش نہ ہو اور ہمارا توازن امریکی معاملات کے حوالے سے بھی نہ بگڑے۔

یہ ایک دائمی حقیقت ہے کہ خارجہ تعلقات کسی جذباتیت کے تحت نہیں نبھائے جاتے بلکہ قطعی طور پر غیر جذباتی انداز میں معاملات کو دیکھا جاتا ہے اور اس کو نمٹایا جاتا ہے۔

امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز کی سی پیک کے حوالے سے تازہ گفتگو اس امر کی غماز ہے کہ امریکہ سی پیک کے حوالے سے جو سوچ رکھتا ہے اس کے جو تحفظات ہیں وہ اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں اور عوام کے دلوں میں بھی سی پیک کے حوالے سے خدشات کو ابھارنا چاہتا ہے۔

یہ 2000ء کی بات ہے کہ جب صدر کلنٹن پاکستان اور بھارت کے دورے پر آنے والے تھے تو میری ایلس ویلز سے پہلی ملاقات ہوئی اور اس کے بعد متعدد ملاقاتیں، اس لئے میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایلس ویلز جو بار بار اس قسم کی گفتگو کر رہی ہے وہ صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ اس حوالے سے صف بندیاں بھی جاری و ساری ہیں۔

ویسے یہ صف بندیاں سی پیک کے اعلان کے ساتھ ہی نظر بھی آنے لگی تھیں اور پاکستان میں بگڑتے سیاسی حالات بھی بین الاقوامی طاقتوں کے باہم وطنِ عزیز میں دست و گریبان ہونے سے ایک تعلق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔

اب یہ کیفیت کیا نئے گُل کھلاتی ہے اِس کا تدارک کرنے کی غرض سے حکمتِ عملی طے کرنا ایوانِ اقتدار کے کرتا دھرتائوں کا کام ہے لیکن جو حالیہ عدالتی معاملہ در پیش ہوا جس میں حکومت کی جگ ہنسائی ہوئی اس کے بعد یہ گمان کر لینا کہ یہ معاملہ فہمی کرتے ہوئے کوئی درست راستہ اختیار کر لیں گے، اس کا امکان مکمل طور پر رفع ہو چکا ہے۔

ویسے بھی سفارتی حلقوں سے لے کر سی پیک پر نظر رکھنے والے افراد کی نظر میں سی پیک پر کام کی رفتار سوا برس سے کچھوے کی چال کی مانند ہے۔

دنیا کے اہم ممالک کے سفارت خانے اسلام آباد میں سی پیک اور پاک چین تعلقات پر اپنے ڈیسک قائم کر چکے ہیں۔

ایلس ویلز کے بیان کے جواب کے طور پر چینی سفیر نے بھی اپنی بات پاکستانی عوام تک پہنچانے کی غرض سے ایک بیان جاری کیا۔

موجودہ چینی سفیر بھی گزشتہ عشرے میں اسلام آباد میں چین کے نائب سفیر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے، لہٰذا ان سے بھی اُس وقت کی دعا سلام ہے۔ وہ وطنِ عزیز میں چین کا چہرہ ہیں۔

لہٰذا جواب سفارتی اداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیا گیا اور سی پیک کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا گیا کہ اس سے چین کے ساتھ ساتھ پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پاکستان میں جاری ایک بہت بڑے منصوبے کے حوالے سے جو حالیہ بیان بازی ہوئی ہے، اس کے فوری طور پر کیا محرکات ہیں۔

اس سے کچھ عرصہ قبل عمران خان کا بیان ہانگ کانگ اور کشمیر میں جاری میڈیا کوریج کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔

کشمیر کی میڈیا کوریج کی عدم موجودگی کو ایک ایسے مقام سے ملائے جانا جہاں چین اقتدار رکھتا ہو اور امریکہ اس کو ایک اور رنگ دینا چاہتا ہو، قطعی طور پر غیر مناسب تھا۔

ہم ان دونوں ممالک کے سی پیک پر باہمی الجھائو سے ہی پریشان ہیں چہ جائیکہ ہم کسی اور معاملے میں اپنی ٹانگ اڑائیں۔ کشمیر بذاتِ خود ایک بین الاقوامی معاملہ ہے۔

اس کو کسی دوسرے سے اس انداز میں مماثلت دینا ناصرف غیر مناسب ہے بلکہ اس کے غیر معمولی اثرات کا سامنا بھی وطنِ عزیز کو کرنا پڑ سکتا ہے اور پاکستان اس وقت ایک عجیب ناتوانی کیفیت میں موجود ہے۔ اس لئے اس کو ایسی کسی کیفیت سے دور رکھنا ہی دانشمندی ہوگی۔

ناتوانی کی تو یہ حالت ہے کہ وفاقی وزراء کے حوالے سے یہ خیال بہت مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے کہ یہ مختلف گروپوں کے مفادات کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کی تعیناتی ہو یا معزولی یا معزولی کی خواہش، اس میں غیر ممالک دیدہ دلیری سے حصہ لے رہے ہیں۔

خبر تو یہاں تک ہے کہ جب حال ہی میں مقتدرہ میں ایک اعلیٰ سطحی تعیناتی ہوئی تو اس وقت بھی بعض قریبی ممالک نے اس میں مداخلت کی کہ فلاں ہمارا بندہ ہے اور فلاں ہمارے خلاف۔ جب غیر ملکی مداخلت اس حد تک پہنچ جائے تو اس وقت مملکت کے اربابِ اختیار کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہئے کہ اس کمزوری کا ازالہ کیونکر ممکن ہے کیوںکہ داخلی مضبوطی ہر طرح کے معاملات کو استحکام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تازہ ترین