• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج مشاعرے کا تفریح گاہ بن جانا شعر و سخن کی موت ہے، مبین مرزا

کراچی (ذیشان صدیقی/اسٹاف رپورٹر) ممتاز نقاد اور دانشور مبین مرزا نے آرٹس کونسل کراچی کے زیراہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پہلے اجلاس میں ’’شعر و سخن کا عصری تناظر‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس میں اپنے مقالہ میں کہا کہ تغیرات کا عمل حقیقت ہے مگر بڑی تبدیلی کو روزمرہ نہیں کہا جا سکتا، یورپ میں ادب کی صورتحال پر کافی گفتگو ہوئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عصری حقائق کے ساتھ اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے،انہوں نے کہا کہ مشاعرے تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے آئے ہیں، سب سے پہلے شعر سننے اور کہنے کے قاعدے سکھائے جاتے تھے آج مشاعرے کا تفریح گاہ بن جانا شعر و سخن کی موت ہے، میڈیا نے بھی اس میں بڑا کردار ادا کیا ہے،اجلاس کی صدارت افتخار عارف، امجد اسلام امجد، کشور ناہید، امداد حسینی، عذرا عباس، منظر ایوبی اور افضال احمد سید نے انجام دی جب کہ نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیئے،یاسمین حمید نے اپنے مقالہ ’’جدید نظم میں طرز احساس کی تبدیلیاں‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جدیدیت کا لفظ نظم اور غزل کے لئے بار بار استعمال ہوا ہے جب کہ 1939ء کے جدیدیت پسند حلقے نے اسے استعمال کیا۔ عمومی سطح پر جدیدیت پسندی حاوی ہوتی گئی۔ نظم کے اظہار میں پھیلائو ہے،ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے مقالے بہ عنوان ’’جدید غزل میں نسائیت کی مصنوعی جہات‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزل روایتی صنف سخن ہے، خواتین نے جب اپنے پورے وجود کے ساتھ لکھنا شروع کیا تو وہی جدید غزل کا دور ہے،شاداب احسانی نے اپنے مقالہ ’’اردو شاعری اور پاکستانی بیانیہ‘‘ میں کہا کہ جس قوم کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ اس کا تاریک پہلو ہوتا ہے۔ پاکستان کی بقاء پاکستانی بیانے میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اصناف ثقافت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، شاعری انسان کا اولین اظہار ہے، ادب اور شعر کی بات میں زندگی سے جڑا اظہار بھی ادب کہلاتا ہے، شاعری معاشرے کی ترجمان ہوتی ہے۔

تازہ ترین