• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دہائی سے زائد جاپان میں مقیم رہنے کے باوجود اسے اتفاق ہی کہیں گے کہ جب بھی جاپان میں عام انتخابات کا وقت آیا میں کسی نہ کسی اہم مصروفیت کے باعث پاکستان یا دیگر ممالک کے سفر کے باعث جاپان میں ہونے والے عام انتخابات کا بذات خود مشاہدہ نہ کر سکا تاہم چند ماہ قبل جاپان میں ہونے والے عام انتخابات کے مشاہدے کے لئے میں نے اپنی تمام مصروفیات جاپان کے عام ا نتخابات کو سامنے رکھ کر مرتب کی تھیں تاکہ الیکشن کے دوران جاپان میں ہی مقیم رہوں اور جاپان میں ہونے والے عام انتخابات کا مشاہد ہ کر سکوں، جاپان میں عام انتخابات کا مشاہدہ میرے لئے انتہائی اہم تھا۔
امریکہ کے بعد جاپان دنیا کی دوسری بڑی جمہوری معاشی قوت کے طور پر انتہائی اہم ملک ہونے کے باعث اپنا الگ مقام رکھتا ہے جبکہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے مشاہدے کا تجربہ جہاں انتخابی مہم کے دوران قتل و غارت گر ی ، دہشت گردی اور جعلی ٹھپّوں کا رواج عام سی بات سمجھا جاتا ہے وہیں جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کی مصروفیات دیکھنا اور اسے میڈیا کے ذریعے پاکستانی عوام تک پہنچانا میرے لئے ایک دلچسپ اور ضروری عمل تھا تاکہ پاکستان کے عوام بھی جاپان جیسے مہذب اور ترقی یافتہ ملک کے عوام کے کردار سے روشناس ہوکر کچھ سیکھ سکیں، یہی وجہ تھی کہ جاپان میں عام انتخابات کے مشاہدے کے لئے میرے ذہن میں جو بنیادی سوالات تھے انہیں قبل از وقت ضبطِ تحریر کرچکا تھا جو پاکستان میں ہونے والے 2008ء کے عام انتخابات کے تجربے کی بنیاد پر تیار کئے گئے تھے، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ جاپان میں سیاسی جلسوں کی تیاریاں کس طرح ہوتی ہیں،پمفلٹ اور بینرز سیاسی تشہیر کے لئے کس طرح استعمال ہوتے ہیں اور عوام پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
میڈیا انتخابات کے دنوں میں کیا رول ادا کرتا ہے یا سیاسی جماعتیں انتخابات کے دنوں میں میڈیا کو اپنے مفاد کے لئے کس طرح استعمال کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر جاپانی عوام الیکشن میں کس قدر دلچسپی لیتے ہیں اور انتخابات کے دوران ہونے والے جلسے جلوسوں میں جاپانی عوام کس قدر شرکت کرتے ہیں، یہ تمام سوالات پاکستان میں ہونے والے انتخابات سے متاثر ہوکر تیار کئے گئے تھے جن کے جوابات کے ساتھ رپورٹ تیار کرکے پاکستانی میڈیا میں شائع کرنا تھی تاکہ پاکستانی عوام بھی جاپان کے سیاسی نظام سے آگاہ ہو سکیں۔ یوں تو پاکستان کے گزشتہ انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 2008ء کے عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی ہلچل مچی ہوئی تھی اور جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے تھے صحافی حضرات ایک دن میں کئی کئی جلسے،ریلیاں اور کارنر میٹنگ کوریج کرنے کے لئے دوڑے پھر رہے تھے، شہر کی ہر گلی، سڑک اور بازار سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے بینرز سے سجے ہوئے تھے مختلف علاقوں میں لگے ہوئے امیدواروں کے بینرز لسانی حد بندی کی نشاندہی کر رہے تھے۔
انتخابی جھگڑوں کا تو تذکرہ ہی کیا ہر طرف سے الزام اور جوابی الزام کی رپورٹیں آ رہی تھیں غرض پورا ملک الیکشن فوبیا کا شکار لگ رہا تھا۔ الیکشن کا بخار اتنا چڑھا ہوا تھا کہ اسکول، کا لج اور یونیورسٹیاں کھلی ہونے کے باوجود طالب علموں کی راہ تک رہی تھیں جبکہ طالب علم کتابوں کے بجائے سیاسی پمفلٹ اپنے ساتھ رکھتے اور انہیں تقسیم کرتے دکھائی دیتے تھے، سیاسی جماعتوں کی بغل بچہ تنظیموں نے اچھے خاصے تعلیمی ماحول کو سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کر رکھا تھا، زندگی کے تمام شعبوں میں سیاسی ماحول کچھ اس طرح چڑھا ہوا نظر آتا تھا کہ نہ کسی کو ملک کی معیشت کی فکر دامن گیر تھی اور نہ ہی دیگر قومی معاملات پر توجہ دی جا رہی تھی۔ سیاسی جماعتیں، امیدوار دل کھول کر دولت لٹانے میں مصروف تھے اور الیکشن جیتنے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تیار تھے تاکہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے خرچ کی جانے والی رقم سود سمیت ملک اور قوم سے وصول کی جا سکے۔ انہی سوچوں کے ساتھ جاپان میں عام انتخابات کا دور قریب آچکا تھا 16دسمبر 2012ء کو جاپان میں عام انتخابات کی تاریخ تھی یکم دسمبر تک کوئی انتخابی چہل پہل نظر نہ آنے کے بعد جاپان کی حکمراں اور اپوزیش دونوں ہی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا اور انتخابی جلسوں، ریلیوں اور جلوسوں سے متعلق معلومات حاصل کیں تاہم جب جلسے جلوسوں کا کوئی پروگرام میسر نہیں آسکا تو اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے بھی معلومات حاصل کیں کہ کسی سیاسی جلسے کی کوریج کی جائے۔
انہی کوششوں کے نتیجے میں بڑی مشکل سے اس وقت کی اپوزیشن جماعت کے امیدوار نے ا گلے روز شام کو ایک شاپنگ مال پہنچنے کی دعوت دی جہاں کوئی سیاسی جلسہ منعقد ہونا تھا، میں اگلے روز تیار ہوکر ضروری سامان کے ساتھ متعلقہ شاپنگ مال پہنچ گیا ہر طرف معمول کی چہل پہل تھی جلسہ تو دور کی بات کسی جلسی تک کا شائبہ نہ تھا، میں سمجھا شاید کسی دوسر ے شاپنگ مال کے متعلق بتایا گیا ہے،ابھی اس گتھی کو سلجھا رہے تھے کہ ایک وین نما گاڑی آہستہ آہستہ شاپنگ مال کے قریب آئی، گاڑی کے باہر سیاسی جماعت کے سربراہ کی تصویر موجود تھی جبکہ گاڑی کے ساتھ چند خواتین بھی موجود تھیں جو قریب سے گزرنے والے عام شہریوں کو سیاسی جماعت کے پمفلٹ تقسیم کررہی تھیں جبکہ چند ہی لمحوں کے بعد پارٹی کے امیدوار نے گاڑی کے سن روف سے سر باہر نکال کر میگا فون کے ذریعے سیاسی تقریر شروع کی تو حیرت کا جھٹکا لگا کہ یہ کیسا سیاسی جلسہ ہے نہ کوئی سیاسی کارکن نہ اسٹیج اور نہ ہی عوام کا ٹھاٹیں مارتا سمندر ، ایک نئے انتخابی جلسے سے روشناس ہورہا تھا لیکن موصوف کی تقریر جاری تھی، شاپنگ مال کے باہر ٹریفک پوری روانی سے جاری تھی ، لوگ بھی اسی طرح اپنی مصروفیات میں ہی مصروف تھے اکا دکا لوگ ٹیکسی یا بس کاانتظار کرتے ہوئے موصوف کی تقریر سنتے اور اس کے بعد اپنی مطلوبہ بس یا ٹیکسی کے آتے ہی اس میں سوار ہوکر روانہ ہوجاتے لیکن مجال ہے جو مقرر کے جوش و خروش میں کوئی کمی واقع ہوتی، مذکورہ امیدوار آنے جانے والی گاڑیوں سے بھی مخاطب ہوتے اور گاڑیوں والے مسافر صاحبان بھی امیدوار کو ہاتھ ہلاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے، یہ سلسلہ خاصی دیر تک چلتا رہا جس کے بعد موصوف کی تقریر ختم ہوئی تو میں ان تک پہنچا ، مجھے پہچانتے ہوئے بڑی خوشدلی سے ملے اور اگلے روز کے لئے ٹوکیو میں ہی دوسرے علاقے کے شاپنگ مال کا ایڈریس تھماتے ہوئے بولے کل کا جلسہ یہاں منعقد ہوگا، آپ ضرور تشریف لائیے گا ، لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ شاید میں اکیلا فرد ہی ہوں جو خاص طور پر موصوف کی تقریر سننے کے لئے اتنا لمبا سفر کرکے آئے گا ، مجھے موصوف کے حوالے سے لوگوں کی عدم دلچسپی دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ یہ امیدوار الیکشن ہار جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور موصوف الیکشن جیت کر آج کل حکومت کے مزے اڑا رہے ہیں۔
جاپان میں انتخابی مہم کے دوران نہ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کی جانب سے نہ کوئی بڑے بڑے اسٹیج سجائے جاتے ہیں، نہ ہزاروں افراد کو پیسے دیکر جلسے جلوسوں میں شرکت کے لئے لایا جاتاہے، نہ ہی اسکولوں کی چھٹیاں کرائی جا تی ہیں اور نہ ہی کاروبار کو بند کیا جا تا ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے مخالف امیدوار کو راستے سے ہٹایا جاتا ہے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کی روزمرہ زندگی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا تی،جاپان میں سیاسی پارٹیاں الیکشن میں بے دریغ دولت نہیں لٹا سکتیں اور نہ ہی کوئی امیدوار اپنا بینر کسی سرکاری عمارت یا سرکاری پول پر باندھ سکتا ہے بلکہ اس قسم کے بینر آویزاں کرنے کی روایت نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ الیکشن میں غیر ضروری اخراجات نہیں ہوتے۔
یہ درست ہے کہ سیاسی پارٹیاں سیاسی فنڈ ریزنگ کیا کرتی ہیں مگر کسی کو اغواء ، قتل ،دھونس ،دھمکی کے ذریعے نہیں بلکہ صرف پارٹی کے افراد سے یہ چندہ لیاجاتا ہے البتہ بڑی بڑی ایسوسی ایشنز جو تجارتی یا کسی اور شعبے سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی سیاسی چندہ دیتی ہیں مگر ان کا ریکارڈ کسی طرح خفیہ نہیں ہوتا ان ایسوسی ایشنز کے چندہ دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی پسندیدہ جماعت برسراقتدار آکر ایسی معاشی پالیسیاں ترتیب دے جس سے ان کے کاروبار کو مزید وسعت حاصل ہو سکے، جاپان میں خفیہ طور پر سیاسی فنڈ وصول کرنا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے جبکہ جاپانی عوام انتخابات میں غیر ضروری اخراجات کرنے والی سیاسی جماعتوں کو پسند نہیں کرتے کیونکہ انتخابات کے حوالے سے جو اصول مرتب کئے جاتے ہیں ان پر چلنا اور پابندی کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے تاہم انتخابی قوانین پر عملدرآمد کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور جاپان میں یہ ادارہ اپنی ذمہ داریاں بہترین طریقے سے انجام دے رہا ہے۔
تازہ ترین