• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے تکبیر … پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
ان دنوں برطانیہ میں انتخابات کا موسم ہے۔12 دسمبر 2019 بروز جمعرات پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ انتخابات میں کثیر تعداد میں مسلمان امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ عمومی طور پر دیگر طبقات کی طرح مسلمان کمیونٹی بھی اپنے من پسند آزاد امیدواروں یا سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں سرگرم عمل نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ’’غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کا ووٹ دینا حرام اور شرک ہے‘‘۔ ان حالات میں کچھ لوگ فیصلہ کر نے میں ہچکچاہٹ اور الجھن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں کہ ووٹ دیں یا نہ دیں۔ اس لئے اس اہم مسئلہ کو ضبط تحریر میں لانا مناسب سمجھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو ووٹ کاسٹ کرنا چاہئے یا نہیں؟ مزید کچھ لکھنے سے پہلے اس حوالے سے ’’عالمی رابطہ اسلامی‘‘ (MUSLIM WORLD LEAGUE) کے ایک اہم اجلاس کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جو 22 تا 27 شوال 1428 بمطابق 3 تا 8 نومبر 2007 مکہ مکرمہ میں منعقد ہوا۔ اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر 8 نومبر 2007 کو منعقدہ اجلاس میں اس موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا کہ کیا غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی شریعت کی رو سے وہاں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنا چاہئے یا نہیں؟ دنیائے اسلام کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے نامور علماء اور فقہا نے ایک پورے سیشن میں بحث و تمحیص کے بعد ’’المجمع الفقہ الاسلامی‘‘ کی طرف سے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ چونکہ وہاں رہنے والے مسلمانوں کے بیشمار مسائل اور مصالح اس کمیونٹی اور حکومت وقت سے وابستہ ہوتے ہیں لہٰذا شرعی حوالے سے مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ اپنا ووٹ ڈالیں اور اس میں کسی طرح کی کوئی قباحت نہیں۔ اس فتویٰ کا موضوع ہے ’’مشارکۃ المسلم فی الانتخابات مع غیر المسلمین فی البلاد غیر الاسلامیہ‘‘۔ عالمی رابطہ اسلامی کی ویب سائٹ (www.themwl.org) پر اصل فتویٰ دیکھا جا سکتا ہے جو کہ عربی زبان میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ووٹ نہیں بھی ڈالیں گے پھر بھی پارلیمنٹ تو وجود میں آئے گی اور وہ قانون سازی کرے گی۔ ہر حال میں یہاں رہنے والے باشندوں پر وہ قوانین لاگو ہوں گے خواہ وہ چاہیں یا نہ چاہیں۔ اگر قانون کو نہیں مانیں گے تو بغاوت ہوگی جس کی سخت ترین سزا ہے۔ جب ووٹ سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کے قوانین پر ہم عمل درآمد کرتے ہیں تو پھر کیوں نہ ووٹ دے کر دینی، سماجی اور معاشی حوالے سے اپنے حقوق کی پاسداری کریں۔ تعجب ان لوگوں پر ہے جو ووٹ سے منتخب ہو کر معرض وجود میں آنے والی اسمبلیوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق جملہ مراعات مثلا کونسل کے گھر، چائلڈ بینیفٹ، ٹیکس کریڈٹ اور معذوری و بے روزگاری کے الاؤنس تو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں لیکن اس پارلیمنٹ کو تشکیل دینے میں حصہ دار بننے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ اگر ووٹ دینا ’’حرام‘‘ ہے تو پھر اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی یہ مراعات بھی یقینا حرام ہوں گی۔ لہٰذا جو مراعات لے چکے ہیں واپس کریں اور آئندہ لینے سے توبہ کریں تو ان کی حسن نیت آشکارہ ہو جائے گی۔ ورنہ ان کے اس موقف میں مسلمانوں کے وسیع تر مفادات کے خلاف سازش دکھائی دیتی ہے۔ جس طرح ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہیے اسی طرح غیر اسلامی حکومت میں اہم منصب پر منتخب ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ منتخب ہونیوالے بھی عوام الناس کی خدمت اور دینی مصلحتوں کو مد نظر رکھیں۔ حضرت یوسف ؑعلیہ السلام۔۔اللہ تعالی کے نبی تھے۔ سرزمین مصر میں قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ حالات انتہائی دگر گوں تھے جبکہ عزیز مصر کی حکومت غیر اسلامی تھی۔ قرآن گواہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے جیل سے باعزت رہائی کے بعد اس غیراسلامی حکومت میں وزیر خزانہ کا عہدہ نہ صرف سنبھالا بلکہ طلب کیا۔ (قَالَ اجْعَلْنِی عَلَیٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ سورہ یوسف آیت نمبر 55)۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حکمت بھرے فیصلے سے ملک میں خوشحالی آئی اور سر زمین مصر میں دین حق کو تقویت ملی۔ ان معاشروں میں رہتے ہوئے ہمارے بیشمار مسائل ہیں جن کیلئے ہماری آواز ہر فورم پر بلند ہونی چاہیے وہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم پولیٹیکل پراسس میں حصہ لیں گے۔ ہمیں تمام پارٹیوں اور آزاد افراد کے منشور کا گہرائی سے جائزہ لے کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمارے بین الاقوامی، دینی، معاشی ا و ر سماجی مفادات کا تحفظ کہاں زیادہ ہے۔ جہاں ہمیں بہتری دکھائی دے وہاں حمایت کریں۔ بقول شیخ حمزہ یوسف مسلمانوں کی حماقت ہو گی اگر یہاں رہتے ہوئے سیاسی عمل میں حصہ دار نہیں بنیں گے۔ انھوں نے ووٹ کو حرام کہنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ یہاں سے ہجرت کر جائیں۔ لیکن پاکستانی تارکین جائیں گے بھی کہاں کیوں کہ پاکستان کا قیام تو خود ایک غیر اسلامی حکومت (برطانوی راج) کے دور میں ووٹ کے ذریعہ ہی عمل میں آیاتھا۔ اگر اس وقت مسلمان غیر اسلامی حکومت میں ووٹ ڈالنا حرام سمجھتے تو پاکستان کا وجود میں آنا ہی ناممکن ہوجاتا۔ کسی بھی معاشرے میں ووٹ ایک فرد کی رائے ہے جو اپنی فہم اور دانست کے مطابق ضمیر کی آواز سمجھ کے،جسے بہترسمجھے اس کے حق میں دے۔ یہ حقیقت میں ایک سفارش، وکالت اور امانت ہے۔ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے زیر عتاب رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرکے اپنے حقوق اور مفادات کا تحفظ کریں۔ یہاں کوئی بھی ووٹ دینے والا کسی شرک و کفر میں حصہ دار بننے کیلئے نہیں بلکہ سماجی، دینی اور معاشی مصالح کیلئے ووٹ دیتا ہے۔ کیونکہ ’’برٹش مسلم‘‘ کے طور پر ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل یہاں وابستہ ہے۔ اسلامی تاریخ کے کئی واقعات میں مسلمانوں نے مصلحت کے پیش نظر غیر مسلموں میں سے جس کو بہتر سمجھا اس کے حق میں رائے دی۔ مثلا قرآن پاک کی سورہ روم کی ابتدائی آیات میں ایک واقعہ ذکر ہے کہ نبی کریمﷺ کے دور مبارک میں جب روم کے عیسائیوں اور ایران کے آتش پرستوں کے درمیان جنگ ہوئی تو مسلمانوں کی ہمدردانہ رائے اہل کتاب عیسائیوں کے حق میں تھی جبکہ مشرکین مکہ ایران کے (آتش پرستوں) مشرکین کی حمایت کر رہے تھے۔ جب کسریٰ نے اہل روم کے عیسائیوں کو شکست دی تو مسلمان پریشان ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد جب روم کے عیسائیوں نے مشرکینِ ایران کو شکست دی تو مسلمانوں نے خوشی کا اظہار کر کے اہل روم کی حمایت کی۔ اگر چہ دونوں غیر مسلم تھے لیکن مسلمانوں نے جس کو قدرے بہتر سمجھا اس کے حق میں رائے دی اور حضورﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ (سورہ الروم آیت نمبر 1-5) جب مسلمان حبشہ میں پناہ گزین کے طور پر رہ رہے تھے اور وہاں نجاشی والی حبش ایک عیسائی حکمران تھے (جو بعد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے)۔ جب نجاشیؓ نے اپنے مخالفین کو شکست دی تو مسلمانوں نے نجاشی کے حق میں رائے دی اور اظہار خوشی کیا۔ اگرچہ وہ ایک غیر اسلامی سلطنت تھی اور مسلمان وہاں اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے۔ اُس دور میں اظہار رائے کا یہی طریقہ تھا اور اسی کی جدید شکل آجکل ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔ لہذا فرض منصبی سمجھتے ہوئے، سوچ سمجھ کر ووٹ ضرور کاسٹ کریں۔
تازہ ترین