• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:قاری عبدالرشید ۔۔اولڈھم
دین کے بنیادی اصول تین ہیں جن کو لے کر تمام پیغمبر آئےاور جن پر انسان کی سعادت کا دارومدار ہے1: توحید2: رسالت3 :قیامت۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تمام عالم (جہاں) گمراہی میں مبتلا تھا۔قرآن کریم آپﷺ پر نازل ہوا اور من جانب اللہ ہدایات اور اصلاحات کو لے کر اترا۔اصول اور فروع کی تمام گمراہیوں کی اصلاح کی اور سب سے پہلے دین کے ان تین بنیادی اصولوں میں جو گمراہیاں پھیل گئی تھیں ان کی اصلاح کی’’دین کی پہلی اصل توحید ہے‘‘جس کے بارے میں تمام قومیں گمراہ ہوئیں مجوس، دو خدا کے قائل ہوئےاور مشرکین بت پرستی میں مبتلا ہوئے۔یہود باوجودیکہ انبیآء علیہم السلام کی تعلیمات اور ہدایات سے واقف تھےمگر وہ بھی توحید کے بارے میں گمراہ ہوئے۔ اپنی گمراہی سے خدا کو انسان جیسا بنا دیا کہ جو تھک بھی جاتا ہے اور انسان کے پیدا کرنے میں نادم اور پریشان بھی ہوتا ہےاور خدا کی اسرائیل سے کشتی بھی ہوئی خدا اسرائیل کی گرفت سے اس وقت تک باہر نہ نکل سکا جب تک اسے برکت نہ دے دی۔نصاریٰ کھلم کھلا شرک میں مبتلا ہوئےاور تثلیث کا مشرکانہ عقیدہ ایجاد کیا ۔قرآن کریم توحیدکی تعلیم اور شرک اور تثلیث کے ابطال سے بھرا پڑا ہے۔ ’’دین کی دوسری اصل اعتقاد نبوت ہے‘‘ مشرکین تو نبوت کے سرے سے(ہی )منکر تھےاور بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے تھےاور یہود اگرچہ نبوت کے قائل تھے مگرباوجود اس کے انبیآء کرام علیہم السلام کو خدا کے مقابلے میں جھوٹ اور فریب اور دھوکہ سے بھی آلودہ بتلاتے تھےاور پیغمبروں سے کبیرہ گناہوں کے صدور کے بھی قائل تھے ۔نیز یہود نبوت کو بنی اسرائیل کی حد تک محدود رکھتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ منصب نبوت بنی اسرائیل تک خاص کر دیا گیا ہے ۔معاذ اللہ، خدا تعالٰی اپنی پیغمبری کے لیے سوائے بنی اسرائیل کے کسی اور کو منتخب نہیں کر سکتا ۔یہودیوں کی طرح عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ نبوت صرف بنی اسرائیل میں محدود ہےاور حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کے حواریوں کے سوا کسی اور نبی کو معصوم نہیں سمجھتے تھےاور عیسائی لوگ یہودیوں کے برعکس حضرت مسیح علیہ السلام کی الوھیت اور ابنیت(بیٹا)کے قائل تھے۔قرآن کریم نے جابجا مشرکین اور یہود اور نصاریٰ کے عقیدہ نبوت کے بارے میں کامل اصلاح کی۔ ’’دین کی تیسری اصل عقیدہ قیامت ہے‘‘ یعنی جزا و سزا کا اعتقاد رکھنا۔مشرکین اور بت پرست قیامت کے سختی سے منکر تھے اور جزا و سزا کے قائل نہ تھے ۔جزا و سزا کے مسئلہ میں عیسائیوں کو یہ غلطی پیش آئی کہ انہوں نے فدیہ ہو جانے والے نجات دہندہ کا عقیدہ قائم کرلیا وہ یہ کہتے ہیں کہ نجات دینے والا خود فدیہ بن کر انسانوں کو ان کے گناہوں کی سزا سے بچا لے گا ۔ یہودیوں کا زعم یہ ہے کہ خدا تعالٰی دنیا وآخرت میں صرف بنی اسرائیل کا طرف دار ہےاور جنت بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص ہے۔’’اسلام کی تعلیم‘‘جزا و سزا کے بارے میں اسلام یہ کہتا ہے کہ نجات ایمان اور عمل صالح پر موقوف ہے۔ایمان اور کفر پرجوجزا اور سزا ملے گی اس میں کسی قوم کوکسی(دوسری) قوم پر ترجیح نہ دی جائے گی بلکہ غایت درجہ عدل و انصاف کے ساتھ ایمان اور نیکیوں پر ثواب اور کفر اور برائیوں پر عتاب ہو گا ۔سزا میں عدل پورا ہوگا کہ ایک بدی اور گناہ کا بدلہ ایک ہی ملے گااور جزا و انعام میں عدل کے ساتھ احسان اور لطف و کرم غالب ہو گا کہ ایک نیکی کا ثواب دس گناہ ملے گا اور خدا چاہے گا تو اور بھی اضافہ کر دے گا ۔قرآن کریم نے اس مسئلہ کو عجیب انداز میں بار بار اور ہر جگہ دل کش اور دل آویز دلائل اور براہین سے اس کو خوب ہی دل نشین کر دیا ہے۔(سورہ المئومنون پارہ 18 آیت 115 افحسبتم۔ اورسورہ القیامہ پارہ 29آیت 26تا40 ایحسب الانسان ۔کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیں) ’’فلاسفہ قیامت کے تو قائل ہیں‘‘مگر صرف روحانی قیامت کے قائل ہیں جسمانی قیامت کے وہ قائل نہیں اور اسلام روح وجسم کے ساتھ دوسری زندگی کی تعلیم دیتا ہے ۔ فلسفی نظریہ رکھنے والے صرف روحانی قیامت اور روحانی حشر پر اس لیے زور دیتے ہیں کہ جسمانی لذتوں کو وہ حقیر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ محض حیوانیت ہےحالانکہ خود جسمانی لذتوں پر فریفتہ ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ انسان جسم اور روح دونوں سے مرکب ہےاور یہ مجموع مرکب احکام خدا وندی کا مکلف ہے۔لٰہذا جزا و سزا بھی روح وجسم دونوں پر جاری ہونی چاہیے ۔ پس جو دین ہر پہلو سے کامل و مکمل اور اصول و فروع کے اعتبار سے معقول اور مدلل ہو وہی دین کامل ہے جس کی اتباع سے اللہ تعالٰی تک رسائی ہو سکتی ہے(سورہ آل عمران آیت3 الیوم اکملت۔اورآیت19ان الدین۔ اسی طرح آیت 85ومن یبتغ۔کا ترجمعہ وتفسیر پڑھ لیں)منقول ازکتاب:سیرت المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جلد دوم صفحہ677تا680۔شیخ محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ۔
تازہ ترین