• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف الیکشن کمشنر کیلئے دو ناموں پر غور ہو رہا ہے، فوادچوہدری

کراچی(جنگ نیوز)جیو نیوز کے پروگرام”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے ناموں پر تقریباً اتفاق ہو گیا ہے ،چیف الیکشن کمشنر کے لیے دو ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے قانونی اختلاف کی بہت گنجائش موجود ہے، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو ترمیم کرنے کے لیے حکم نہیں دے سکتی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 243سے متصادم ہے، ملک ریاض کا وطن واپس آنے والا پیسہ سپریم کورٹ کے ریکوری اکاؤنٹ میں ہی جانا تھا۔

ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ ن لیگ کی پریشانی حکومت گرانا نہیں نواز شریف کی صحت ہے، مریم نواز کی خاموشی پارٹی حکمت عملی کا حصہ ہوسکتی ہے، مریم نواز ن لیگ کی میچ وننگ کھلاڑی ہیں، انہیں کس وقت میدان میں اتارنا اور کس پوزیشن پر کھلانا ہے یہ پارٹی کی حکمت عملی ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا شوکت یوسف زئی نے کہا کہ بی آر ٹی منصوبہ مکمل ہی نہیں ہوا تو تحقیقات کس چیز کی ہوں گی پر پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ جائیں گے، ازخود نوٹس صرف سپریم کورٹ لے سکتا ہے ہائیکورٹ نہیں لوگوں کی تکلیف کے مدنظر جلد از جلد منصوبہ مکمل کرنا چاہتے ہیں، نیب تحقیقات کی بات ہورہی تھی تو عدالت نے پہلے منصوبہ مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

ن لیگ کے رہنما محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی تقرری کیلئے بامقصد بات چیت ہوئی ہے، پرامید ہوں یہ مسئلہ پارلیمنٹ کے اندر حل ہوجائے گا، آرمی چیف کی تقرری پر قانون سازی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد کریں گے۔

فواد چوہدری نےمزید کہا کہ پارلیمانی کمیٹی چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے انتخاب کے کافی قریب ہے، الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے ناموں پر تقریباً اتفاق ہوگیا ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کے لیے دو ناموں پر غور کیا جارہا ہے، حکومت اور اپوزیشن نے چیف الیکشن کمشنر کے لیے بہت اچھے نام دیئے تھے، نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں تاخیر نہیں ہوئی ہے، آئین کے تحت نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی 45 دن میں ہونا ہوتی ہے۔

آرٹیکل 243واضح ہے کہ وزیراعظم اپائنٹمنٹ کرسکتے ہیں تو ری اپائنٹمنٹ بھی کرسکتے ہیں، 1956ء اور 1962ء کے آئین میں آرمی چیف کی مدت ملازمت متعین تھی، 1973ء کے آئین میں بحث کر کے ملازمت کی متعین مدت ختم کی گئی، عدالت پارلیمنٹ کو آرمی چیف کی مدت ملازمت متعین کرنے یا نہ کرنے کانہیں کہہ سکتی ہے۔

این سی اے کے ساتھ ملک ریاض کی سیٹلمنٹ کے حوالے سے سوال پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وطن واپس آنے والا پیسہ سپریم کورٹ کے ریکوری اکاؤنٹ میں ہی جانا تھا، سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ سے یہ پیسہ اسٹیٹ بینک کو چلا جائے گا۔

ملک ریاض کے بیان اور شہزاد اکبر کی وضاحت سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ رقم اس 460 ارب روپے سے ایڈجسٹ کرلی گئی ہے جو ملک ریاض نے سپریم کورٹ کو ادا کرنا ہیں، اس معاملہ میں مزید وضاحت شہزاد اکبر دے سکیں گے، فی الحال اسٹیٹمنٹ یہی ہے کہ یہ پیسے ڈھائی سو ملین ڈالر کے قریب ہیں جو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئے ہیں۔

تازہ ترین