• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترک پارلیمنٹ میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) کو کلی اکثریت حاصل ہونے کے باوجود فوج اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ نے عبداللہ گل کے صدر منتخب ہونے کی راہ کو مسدود کر دیا جس پر آق پارٹی نے قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ 22جولائی2007ء میں ہونے والے قبل از وقت انتخابات میںآ ق پارٹی نے اپنے ووٹوں میں بارہ فیصد اضافہ کرتے ہوئے 46.58 فیصد ووٹ حاصل کئے اور ترکی کے اکیاسی صوبوں میں سے صرف تنجیلی صوبے کو چھوڑ کر دیگر اسّی صوبوں میں اراکینِ پارلیمینٹ منتخب کروا کر پارلیمینٹ کی 550 نشستوں میں سے 341 نشستیں حاصل کرلیں حالانکہ اس انتخابات سے قبل پورے ترکی میں فوج کی درپردہ حمایت سے آق پارٹی کے خلاف اور جمہوریت اور سیکولرازم کے حق میں پورے ترکی میں تاریخ ساز جلسے کئے گئے۔ (ان جلسوں میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے فوج اور سیکولر حلقوں نے ایسے ایسے حربے استعمال کئے جن کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی ہے) ان جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت سے یہ عیاں ہو رہا تھا کہ اس بار آق پارٹی کے اراکین کو انتخابات میں منہ کی کھانا پڑے گی اورجب انتخابات ہوئے تو حالات یکسر بدل گئے اور سیکولر حلقوں کو خود منہ کی کھانا پڑی۔

آق پارٹی کو دوبارہ سے عوام کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ملنے پر پارلیمینٹ میں صدر منتخب کرنے کا حق ایک بار پھر آق پارٹی ہی کو حاصل ہوگیا اگرچہ اس جماعت کو پارلیمینٹ کی 367 نشستیں حاصل نہ تھیں لیکن اس بار دائیں بازو ہی کی ایک دیگر جماعت، نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی نے آق پارٹی کا ساتھ دیتے ہوئے 28/اگست2007ء کو پارلیمینٹ کے صدارتی انتخابات میں عبداللہ گل کو صدر منتخب کراتے ہوئے اپنے گناہوں کی کچھ حد تک تلافی کرانے کی کوشش کی تھی۔ صدر منتخب ہونے کی اس تقریب کا فوج نے بائیکاٹ کرتے ہوئے آق پارٹی کو اپنے تیور سے آگاہ کر دیا تھا۔ فوج کو نئے سپریم کمانڈر (ترک آئین کی رو سے صدر فوج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے) کی اہلیہ کے ہیڈ اسکارف پہننے کی وجہ سے فوج کے افسران کی بیگمات میں بھی ہیڈ اسکارف پہننے کا رجحان پیدا ہونے کا خدشہ لاحق ہو چکا تھا اور یہ صورتحال ان کیلئے کسی بھی طرح قابل قبول نہ تھی تاہم فوج کو بادل نخواستہ پارلیمینٹ کے اس فیصلے کے سامنے سر جھکانا پڑا۔
فوج نے اگرچہ کڑوا گھونٹ پی لیا تھا لیکن درپردہ عدلیہ کے ججوں کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے آق پارٹی پر سیکولرازم کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کی راہ ہموار کر لی تھی۔ 14 مارچ 2008ء کو سپریم کورٹ کے اٹارنی جنرل عبدالرحمن یالچین قایا نے آق پارٹی اور اسکے اکہتر رہنماؤں جن میں وزیراعظم ایردوان اور صدر عبداللہ گل بھی شامل تھے پر پابندی لگوانے کے لئے آئینی عدالت سے رجوع کیا۔30جولائی 2008ء کو آئینی عدالت کے دس اراکین میں سے چھ نے پارٹی پر پابندی لگانے جبکہ چار نے پارٹی کے امداد روکنے کا فیصلہ کیا تھاجس پرآئینی عدالت کے چیف جسٹس نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے پارٹی کی ملنے والی سرکاری امداد کو ختم کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے پارٹی کا سر قلم ہونے سے بچالیا۔ترکی جس کی بنیاد سیکولرازم پر رکھی گئی تھی (سیکولرازم دراصل مذہبی معاملات میں اسٹیٹ کے غیر جانبدارانہ رویّے ہی کا دوسرا نام ہے لیکن ترکی میں ایردوان سے قبل تک اسے مذہب یا اسلام سے دوری کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے) میں ہر طرف سیکولرازم نے اپنے بھاری پنجے مضبوطی سے گاڑ رکھے تھے اب ایک جدید طرز کی اسلامی جماعت (اسلامی جماعت سے مراد پاکستان کی جماعت اسلامی یا دیگر اسلامی جماعتوں سے ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے مراد حقیقی اور صحیح سیکولرازم پر یقین رکھنے والی اور جدید خطوط پر استوار جماعت ہے) کے دوسرے دور میں بھی واضح اکثریت سے اقتدار میں آجانا فوج کے اندر بے چینی کا باعث بنا ہوا تھا۔ فوج نے آق پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد ہی سے اس پارٹی کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے درپردہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن اس میں سے کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہوسکی تھی جس پر فوج کے اعلیٰ عہدیداروں جن میں فرسٹ آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل دوان، فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ابراہیم فرطنہ ، بحریہ کے سربراہ ایڈمرل اوزدین اورنیک نے مل کر ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے ایر گنے کون اور بالیوز (ہتھوڑا) کے نام سے پلان تیارکئے ان پلان کے مطابق استنبول کی فاتح اور بیاضد مساجد پر بمباری کرنا اور یونانی فضائی حدود میں ترکی کے ایک فوجی طیارے کو گرانا شامل تھا، پر عملدرآمد کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا کی فضا ہموار کرنا تھا لیکن اس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل حلمی اوز کیوک نے اس پلان کی منظوری نہ دی اور نہ ہی اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی کی جس پر جنرل حلمی اوز کیوک کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ان تمام فوجی افسران نے دوبارہ سے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اس بار بھی وہ ناکام رہے۔
ایردوان حکومت ابتدا ہی سے فوج کی جانب سے اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کئے جانے سے متعلق پوری طرح آگاہ تھی اس لئے اس نے پہلے روز ہی سے عوام کی خدمت کرتے ہوئے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایردوان نے اس دوران بڑے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے فوج کو ذرہ بھر بھی نہ چھیڑا حالانکہ وہ فوج کی تمام ریشہ دوانیوں سے پوری طرح باخبر تھے۔ ایردوان نے اس دوران ملک کی اقتصادیات کی طرف خصوصی توجہ دی اور فی کس آمدنی کو دو ہزارڈالر سے بڑھا کر گیارہ ہزار ڈالر تک پہنچا دیا اور ملک کو اقتصادی لحاظ سے سولہویں بڑی طاقت بنا کر جی 20 ممالک کی صف میں جگہ پانے میں کامیابی حاصل کی۔ وزیراعظم ایردوان نے اپنے پہلے دونوں ادوار میں اپنی حکومت کو مضبوط بنانے اور ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے کی جانب خصوصی توجہ دی کیونکہ وہ جانتے تھے سیاسی لحاظ سے کمزور ہونے کی صورت میں فوج عدنان میندرس کی طرح انہیں بھی تختہ دار پر لٹکانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی اور مختلف وزرائے اعظم کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی طرح ان کی حکومت کا بھی تختہ الٹنے میں ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچائے گی۔ ان تمام باتوں سے باخبر وزیراعظم ایردوان نے اپنے پہلے دونوں ادوار کے برعکس تیسرے دور میں پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد آخر کار فوج پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ فوج پر ہاتھ ڈالنے سے قبل ایردوان نے محکمہ پولیس کی از سر نوتشکیل کی، اس کی خفیہ سروس ڈپارٹمنٹ کو فوج کی خفیہ سروس ڈپارٹمنٹ سے بھی زیادہ مضبوط بنایا اور فوج کے اندر سے حکومت کے خلاف بنائے جانے والے تمام پلانز اور کارروائیوں سے متعلق معلومات یکجا کیں۔ ایردوان حکومت نے اس دوران عدلیہ کو بھی نئے خطوط پر استوار کیا اور اس پر فوج کے تمام اثرو رسوخ کو ختم کرتے ہوئے اسے فوج کا ذیلی ادارہ بننے سے روک دیا۔ ایردوان حکومت نے ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کو یقینی بنایا۔
عدلیہ اور محکمہ پولیس میں ہونے والی ان بڑی تبدیلیوں کے بعد ایردوان حکومت نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے متعلق معلومات اور دستاویزات کو پولیس سے حاصل کرتے ہوئے عدلیہ کے روبرو پیش کر دیا اور اسی دوران آئین مین ترامیم کراتے ہوئے فوجیوں پر سول عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی زمین ہموار کرالی۔ استنبول کی سول عدالت میں ترکی کی تاریخ میں پہلی بار فرسٹ آرمی کے کمانڈر انچیف، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہ اور چیف آف جنرل اسٹاف سمیت اعلیٰ رتبے کے 365 فوجی افسران پر بغاوت کے الزام میں مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا اور طویل مقدمے کی کارروائی کے بعد 325 افسران کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی۔ عدالت نے تینوں افواج کے سابق سربراہان کو عمر قید کی سزا جبکہ دیگر 71 فوجی افسران کو سولہ سولہ سال قید کی سزا سنائی۔ یہ ایردوان حکومت کی ایک ایسی کامیابی ہے جس نے مستقبل میں فوج کے سول حکومت کے انتظامی معاملات میں مداخلت کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں۔ اب ایردوان حکومت ملک میں نیا آئین بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہے (اس وقت تک ترکی میں فوج ہی کی طرف سے تیار کردہ آئین پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے) اور اس نئے آئین میں فوج کو پہلی بار وزارتِ دفاع کی نگرانی میں دیا جا رہا ہے۔ یہ ترکی کی تاریخ کی سب سے بڑی اور اہم تبدیلی ہوگی جس کے ذریعے فوج کو مستقل طور پر سول حکومت کا تابع بنا دیا جائے گا۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ممکن ہو سکے گا؟ ایسا ملک میں مخلوط حکومت کی بجائے صرف تنہا ایک ہی جماعت کے برسراقتدار آنے کی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین